اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پرجوڈیشل انکوائری کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

سپریم کورٹ حکومتی کمیشن کی تشکیل کو کالعدم قرار دے اور خود ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کرے،لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا درخواست میں موقف

Faisal Alvi فیصل علوی منگل 2 اپریل 2024 14:28

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پرجوڈیشل انکوائری کیلئے سپریم کورٹ ..
لاہور(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔02 اپریل2024 ء) لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کی جوڈیشل انکوائری کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی،سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں حکومتِ پاکستان اور وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ ججز سے جوڈیشل انکوائری کروائی جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ حکومتی کمیشن کی تشکیل کو کالعدم قرار دے اور خود ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کرے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام مبینہ مداخلت اور دباوٴ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیاتھا۔

(جاری ہے)

خیال رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔وکلاءکا کہنا تھا کہ حکومت کے زیر قیادت کوئی بھی کمیشن ان الزامات کی تحقیقات کو ضروری آزادی اور اختیارات سے محروم کردے گا۔آئین کا آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا تعین کرتا ہے اور اسے پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے حامل معاملات میں سپریم کورٹ کو دائرہ اختیار استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔

قبل ازیںاسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میںکہا گیا تھا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباوٴ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔خط میں مزید کہا گیاتھا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

28 مارچ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی تھی جس میںدونوں رہنماﺅں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیاتھاجس کے بعد وفاقی کابینہ نے ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا۔گزشتہ روز جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دئیے گئے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی تھی۔