ججز کی تقرری میں من مانی، امتیازی سلوک اور جانبداری دکھائی گئی

سپریم کورٹ میں 4 اسامیاں تھیں لیکن صرف ایک جج تعینات کیا گیا وہ بھی آپ کے صوبے سے، تعصب، امتیاز اور طرفداری کیخلاف آواز اٹھا رہا ہوں، سنیارٹی کے باوجود میرے نام پر کیوں غور نہیں کیا گیا؟ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کا جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے نام خط

muhammad ali محمد علی بدھ 3 اپریل 2024 23:02

ججز کی تقرری میں من مانی، امتیازی سلوک اور جانبداری دکھائی گئی
پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 اپریل2024ء) چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کا جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے نام خط، کہا ججز کی تقرری میں من مانی، امتیازی سلوک اور جانبداری دکھائی گئی، سپریم کورٹ میں 4 اسامیاں تھیں لیکن صرف ایک جج تعینات کیا گیا وہ بھی آپ کے صوبے سے، تعصب، امتیاز اور طرفداری کیخلاف آواز اٹھا رہا ہوں، سنیارٹی کے باوجود میرے نام پر کیوں غور نہیں کیا گیا؟ ۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام تفصیلی خط تحریر کیا گیا ہے۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ محمد ابراہیم خان نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری سے متعلق خط لکھ دیا۔ خط میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے لکھا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری میں من مانی، امتیازی سلوک اور جانبداری پر بھاری دل کے ساتھ خط لکھ رہا ہوں، میں یہ معاملہ آپ کی توجہ میں لاتا ہوں۔

(جاری ہے)

جسٹس محمد ابراہیم خان نے لکھا کہ سپریم کورٹ میں 4 آسامیاں تھیں تاہم بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس نعیم اختر افغان کو تعینات کر کے ایک آسامی پُر کی گئی، مایوسی ہوئی جب معلوم ہوا کہ ایک جج اور وہ بھی آپ کے صوبے سے تعینات کیا گیا۔ انہوں نے لکھا کہ جسٹس نعیم اختر افغان کیلیے حقیقی طور پر خوش ہوں، سنیارٹی، اہلیت اور دستیابی کے باوجود میرے نام پر کیوں غور نہیں کیا گیا، پاکستان کی تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس میں دوسرا سینئر ترین چیف جسٹس ہوں، علاوہ ازیں جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن بھی ہوں۔

خط میں ان کا کہنا تھا کہ توقع تھی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرری کیلیے فہرست میں شامل کیا جائے گا، سپریم کورٹ کے جج کے طور پر موزوں نہ پایا جاتا تو فیصلے کو خوشی سے قبول کر لیتا، کیسز کے بیک لاگ کو دیکھتے ہوئے خیال تھا آسامیوں کو پُر کرنے کیلیے پابندی ہوگی۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے لکھا کہ ٹیکس پیئرز توقع کرتے ہیں کہ آسامیاں فوری پُر کی جائیں تاکہ عدالت بھرپور کام کرے، انصاف کی فراہمی کیلیے تندہی سے کام کرنا فرض ہے، ایک آسامی پر تقرری کے فیصلے نے پریشان اور حقیقی جوابات کی تلاش میں چھوڑ دیا۔

جسٹس محمد ابراہیم خان نے لکھا کہ آسامیوں کو پُر نہ کرنے کی ممکنہ وجوہات کے بارے میں سوچ رہا ہوں، کوئی منطقی اور قائل کرنے والی وجہ ذہن میں نہیں آ سکی۔ آکر میں انہوں نے لکھا کہ میرے پاس ایسے رابطوں کی کمی ہے جو ایسی تقرریوں میں کردار ادا کرتے ہیں، ضمیر کی وجہ سے مجبور ہوں کہ اپنے ادارے کے سامنے حقائق قلم بند کروں، خط لکھنے کا مقصد براہ راست فیصلے کو چیلنج کرنا نہیں تھا، میں نے صرف تعصب، امتیاز اور طرفداری کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔