عدلیہ کے معاملات میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت: ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کی، اب سپریم کورٹ اس معاملے کا فیصلہ کرے گی. شہباز شریف

ججوں کو ملنے والے مشکوک خطوط کے معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے‘ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ملنے والے خطوط پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اس معاملے پر سیاست کو نزدیک بھی نہیں آنے دینا چاہیے.وزیراعظم کا وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 4 اپریل 2024 15:28

عدلیہ کے معاملات میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت: ہم نے اپنی ذمہ داری ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 اپریل۔2024 ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کے معاملے پر حکومت نے کمیشن بنا کر اپنی ذمہ داری پوری کی تھی مگر بعد میں اس تبدیلی آئی اور اب سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے اور وہی اس حوالے سے فیصلہ کرے گی. وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہاکہ ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط والے معاملے پر سپریم کورٹ کے ساتھ میٹنگ کی روشنی میں ہم نے کابینہ کی منظوری کے ساتھ انکوائری کمیشن بنایا اور سابق چیف جسٹس تصدیق جیلانی کی مشاورت اور رضامندی کے ساتھ انکوائری کمیشن کو نوٹیفائی کیا مگر بعد میں جسٹس جیلانی نے معذرت کر لی جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس پر سوموٹو لیا ہے.

شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی تھی مگر اس کے بعد اس میں تبدیلی آئی اور اب سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے وہی اس حوالے سے فیصلہ کریں گے ججز کو بھیجے جانے والے مشکوک پاﺅڈر والے خطوط کے حوالے سے انہوں نے کہ کہ ہمیں اس بارے میں مکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور سیاست کو آڑے نہیں آنے دینا چاہیے‘ ہم اس معاملے کی تحقیق کروائیں گے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے.

وزیراعظم نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ملنے والے مشکوک خطوط کے معاملے پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اس پر سیاست کو نزدیک بھی نہیں آنے دینا چاہیے واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے 25 مارچ کو عدالتی امور میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھ کر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا خط لکھنے والوں میں جسٹس بابر ستار، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت شامل ہیں.

خط میں دعویٰ کیا گیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں لہٰذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے وفاقی حکومت نے ہفتے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے ایک خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے جسٹس (ر) تصدق جیلانی پر مبنی انکوائری کمیشن بھی قائم کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم جسٹس تصدق جیلانی نے اس کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی تھی، جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا جس کی سماعت جاری ہے.

رواں ہفتے ہی سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے کئی ججوں کو مشکوک خطوط ملنے کا معاملہ سامنے آیا تھا منگل کو سائفر کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس عامر فاروق نے انکشاف کیا تھا کہ ’ہم تمام ججوں کو مشکوک خطوط موصول ہوئے، جن میں انتھراکس (کی موجودگی) کا بتایا گیا ہے�

(جاری ہے)

� خطوط میں بنیادی طور پر دھمکی دی گئی ہے.