غزہ پٹی میں عیدالفطر کا تہوار جنگ کے سائے میں

DW ڈی ڈبلیو بدھ 10 اپریل 2024 18:40

غزہ پٹی میں عیدالفطر کا تہوار جنگ کے سائے میں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اپریل 2024ء) ہزاروں مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں بھی جمع ہوئے، جہاں ایک نمازی اور مردانہ نرس راون عبد نے کہا، ''یہ اب تک کی سب سے غمناک عید ہے، آپ لوگوں کے چہروں پر اداسی دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

غزہ میں اس سال عید الفطر کے تہوار پر جنگ، بھوک، موت اور تباہی کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔

اسرائیل نے غزہ کی جنگ کے ابتدائی دنوں میں اس خطے کے لیے امداد کی ترسیل روک دی تھی لیکن پھر امریکی دباؤ کے تحت آہستہ آہستہ امدادی سامان والے ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دی گئی۔ پھر بھی امدادی گروپوں نے شکایت کی ہے کہ غزہ تک رسد پہنچنے میں بہت تاخیر ہو رہی ہے جس کی وجہ اسرائیل کی طرف سے لگائی گئی پابندیاں ہیں۔

(جاری ہے)

دریں اثنا کئی ممالک دیگر راستوں سے غزہ کے بحران زدہ عوام تک رسد پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان میں فضائی اور سمندری دونوں طرح کے ذرائع کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے جنگ کے اپنے ابتدائی ہدف ''شمالی غزہ‘‘ جیسے سخت متاثرہ علاقے کی امداد میں مسلسل اضافہ کیا ہے اور ٹرکوں کے داخل ہونے اور پہنچنے کے لیے مزید داخلی مقامات کھولنا شروع کر دیے ہیں۔

اسرائیل کا امدادی گروپوں پر الزام

اسرائیل امدادی گروپوں پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ امداد کی فراہمی میں بہت سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

غزہ پٹی میں ان گروپوں کا کہنا ہے کہ لاجسٹک مسائل اور غیر یقینی صورتحال ان کے کاموں میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

اسرائیل اور حماس اس وقت بات چیت میں مصروف ہیں جس کا مقصد یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں جنگ بندی کو عمل میں لانا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس جنگ میں ''مکمل فتح‘‘ حاصل کرنے کے عزم کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں۔

اسرائیل کی ''مکمل فتح‘‘ میں رفح میں زمینی فوجی آپریشن بھی شامل ہے، جس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ شہر حماس کا آخری بڑا گڑھ ہے۔ غزہ پٹی کی کل 2.3 ملین کی آبادی کا نصف سے زیادہ اس وقت رفح میں ہی پناہ لیے ہوئے ہے۔

صدر بائیڈن کا تازہ ترین بیان

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا غزہ کی جنگ سے نمٹنے کا انداز ایک غلطی ہے۔

بائیڈن نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی طرف امداد کا پورا ایک سیلاب رواں کرے۔ صدر بائیڈن حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے بھرپور حامی رہے ہیں تاہم اب غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکہ کی طرف سے اسرائیل پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اس وجہ سے ان دونوں دیرینہ اتحادیوں کے باہمی تعلقات میں کھچاؤ بھی پیدا ہو چکا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں امریکی صدر بائیڈن اسرائیل سے کئی مرتبہ واضح مطالبات کر چکے ہیں۔

اس کے علاوہ امریکی انتظامیہ کا اسرائیل کے ساتھ رویہ بھی سخت ہو چکا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ گزشتہ ہفتے ایک امدادی گروپ کے کارکنوں کے ایک قافلے پر وہ اسرائیلی فضائی حملہ بھی بنا، جس میں سات غیر ملکی کارکن مارے گئے تھے۔

ہسپانوی وزیر اعظم کا انتباہ

ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے بدھ کے روز خبردار کیا کہ غزہ میں حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے ''غیر متناسب جواب‘‘ سے ''مشرق وسطیٰ اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا عدم استحکام کے خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔

‘‘ سانچیز نے ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا ''یورپ کے جغرافیائی سیاسی مفادات‘‘ میں ہے۔

اسرائیل اور اس کے اہم اتحادی ممالک طویل عرصے سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور اسے باقاعدہ تسلیم کرنے کے عمل کو ملتوی کرتے رہے ہیں۔

پیدرو سانچیز نے گزشتہ ہفتے اردن، سعودی عرب اور قطر کے اپنے دوروں کے دوران فلسطینی ریاست سے متعلق موضوع اس وقت اٹھایا تھا، جب انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ اسپین ممکنہ طور پر اس سال جون کے آخر تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

بدھ دس اپریل کو ملکی قانون سازوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے سانچیز نے کہا، ''عالمی برادری فلسطینی ریاست کی مدد اس وقت تک نہیں کر سکتی، جب تک وہ اس کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی۔

‘‘ چھ ماہ سے بھی زیادہ عرصہ قبل غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد سے اسپین کے سوشلسٹ وزیر اعظم پیدرو سانچیز یورپ پر مسلسل زور دیتے آئے ہیں کہ وہ خود مختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے متعلق کسی داخلی اتفاق رائے تک پہنچ جائے۔

مارچ کے آخر میں سانچیز نے اپنے آئرلینڈ، مالٹا اور سلووینیہ کے ہم منصب رہنماؤں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ بیان پر دستخط بھی کیے تھے، جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ اگر فلسطین کے تنازعے کا کوئی حل نکالنے میں مدد مل سکتی ہے، تو وہ ''فلسطین کو تسلیم کرنے‘‘ پر بھی تیار ہیں۔

ہسپانوی حکومت کے ایک ترجمان نے کل منگل کے روز کہا تھا کہ وزیر اعظم سانچیز آئندہ دنوں میں اس بارے میں تبادلہ خیال کے لیے ناروے اور پرتگال کے رہنماؤں سمیت کئی دیگر لیڈروں سے بھی ملنے والے ہیں۔

ک م/ م م، ر ب (اے پی، اے ایف پی)