Live Updates

عید پر بھی گمشدہ افراد کے لیے احتجاج: گمشدگی کے مسائل حل کیوں نہیں ہو رہے؟

DW ڈی ڈبلیو بدھ 10 اپریل 2024 19:40

عید پر بھی گمشدہ افراد کے لیے احتجاج: گمشدگی کے مسائل حل کیوں نہیں ہو ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اپریل 2024ء) بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے بلوچستان بھر کے علاوہ کراچی اور اسلام آباد میں جبری طور پر گمشدہ کیے جانے والے افراد کی محفوظ واپسی کے لیے مظاہرے کیے گئے۔

انسانی حقوق کے کارکنان اور متاثرہ گھرانوں کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان کے جاسوسی اداروں کو قانون کے دائرے میں نہیں لایا جاتا، یہ مسئلہ کسی طور پر بھی حل ہونے والا نہیں ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے اپنے مختصر سے بیان میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم پورے بلوچستان میں جبری طور پہ گم شدہ کیے گئے افراد کی واپسی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔‘‘

کمیٹی کی ایک اور رہنما ہزارن بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بلوچستان میں 25 مقامات پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے مظاہرہ کیا جا رہا ہے، جن میں تربت، بلیدہ، حب، گوادر، قلات، خاران، نال، سوراب، سبی، بھاگ، نوشکی اور ڈیرا مراد جمالی سمیت کئی دوسرے علاقے شامل ہیں۔

(جاری ہے)

ہزارن بلوچ کے مطابق ان تمام مقامات پر مختلف اوقات میں آج مظاہرے کیے گئے۔ اس حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ایک پوسٹر بھی جاری کیا، جس کا عنوان، ''قومی یکجہتی بقا کی خاطر‘‘ تھا۔ اس میں بلوچ عوام سے درخواست کی گئی کہ وہ جبری گمشدگیوں ، مسخ شدہ لاشوں، اجتماعی قبروں اور دیگر قومی مسائل کے خلاف سٹرکوں پر آئیں۔

گمشدہ افراد کی واپسی میں رکاوٹ

جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والے ماما قدیر بلوچ کا دعویٰ ہے کہ جبری طور پہ گمشدہ کیے گئے افراد کی واپسی میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کے جاسوسی ادارے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور فوجی قیادت بنیادی طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم نے نواز شریف اور عمران خان دونوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماؤں سے بھی ملے ہیں ان سب نے یہی کہا،'' ہم مکمل طور پر بے بس ہیں۔‘‘

بین الاقوامی برادری سے اُمیدیں

ماما قدیر بلوچ کے مطابق اب انہیں صرف بین الاقوامی برادری سے اُمیدیں وابستہ ہیں۔

''امریکی کانگرس نے جبری گمشدگی کے حوالے سے قراردادیں پاس کی ہیں اور کچھ اراکین کانگرس اس مسئلے پر بین الاقوامی برادری کو آگاہ بھی کر رہے ہیں جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی اس حوالے سے کام کر رہی ہے۔‘‘

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ ماما قدیر کے اس تجزیے سے اتفاق کرتی ہیں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ہاں سیاست دانوں میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ اس مسئلے پر بول سکیں یا کوئی موقف اختیار کر سکیں۔

عدلیہ میں اگر اس حوالے سے کوئی حکم جاری کرتا ہے، تو اس کے اپنے لیے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے دعوٰی کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ماضی میں دو مہینے کا وقت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مانگا تھا۔ '' یہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مانگا تھا لیکن اس کے بعد وہ آئے ہی نہیں۔‘‘

آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق جب تک سیاستدان جاسوسی ایجنسیوں کو ان کے قانونی دائرہ کار میں نہیں لائیں گے اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

''گمشدہ افراد کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے پورے ملک سے اس طرح لوگوں کو جبری طور پہ گمشدہ کیا جا رہا ہے، جس سے بین الاقوامی سطح پہ ملک کی بدنامی ہو رہی ہے۔‘‘

عدالت کا کردار

آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدلیہ کی کارکردگی پہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت منتخب وزرائے اعظموں کو گھر بھیج سکتی ہے۔

''لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اس کی اتنی جرات نہیں کہ یہ کسی حوالدار، کسی کرنل، کسی کیپٹن یا کسی اور عہدے دار کو کوئی سزا دے سکے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالتیں جرات دکھائیں، تو کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے۔ ''ایک مرتبہ جسٹس اطہر من اللہ نے عدالت میں یہ کہا کہ اگر شام تک یہ گمشدہ افراد عدالت میں پیش نہیں کیے جاتے تو پھر آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کو بلایا جائے گا اور چند ہی گھنٹوں میں ان کو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

‘‘

آمنہ مسعود جنجوعہ نے تجویز کیا کہ اگر قانون بنانا سے مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر جاسوسی اداروں سے بات چیت کی جائے۔ '' اور اس کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی، سیاستدان، عدلیہ اور پورا معاشرہ اس مسئلے پر ایک ہی صفحے پہ کھڑے ہوں۔‘‘

جاسوسی اداروں کی طرف اشارے صرف گمشدہ افراد کے گھر والے ہی نہیں کر رہے بلکہ بعض غیر جانبدار قانونی ماہرین بھی اس حوالے سے مقتدر قوتوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسویسی ایشن کی ایک رہنما ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ جب گمشدہ افراد جیسے مسائل سامنے آتے ہیں، تو حکومتیں بھی ہاتھ پیر چھوڑ دیتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومتوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ طاقتیں ان سے بھی زیادہ طاقتور ہیں تو اس لیے وہ اس مسئلے پہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور وہ اپنے اقتدار کے لیے ان قوتوں کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہیں جو انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہوتے ہیں۔

‘‘

ربیعہ باجوہ کے مطابق عموماً یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ گمشدہ افراد دہشت گردی یا ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے جاسوسی ادارے لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے ہیں اور وہاں تک ان کی رسائی ہوتی ہے، تو اگر ان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں تو ان کے خلاف ثبوت اکٹھے کریں اور انہیں قانون کے مطابق سزا دلوائیں۔

‘‘

بلوچستان حکومت کا حصہ رہنے والے سیاست دانوں میں سے چند کا موقف ہے کہ گمشدہ افراد کے مسئلے کا صرف ایک رخ ہی دیکھا جاتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں بلوچ اکثریت پسند پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں اور وہ سکیورٹی فورسز اور چینیوں پر حملے کرتے ہیں۔ بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان جان محمد اچکزئی کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو کچھ عناصر بلاوجہ اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ نام نہاد گمشدہ افراد کہیں پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہوں گے، جہاں وہ عسکری تربیت حاصل کر رہے ہوں گے۔ ان میں سے کچھ ایران یا افغانستان میں بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات