میں نے تاریخ سے کیا سیکھا - ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر

DW ڈی ڈبلیو اتوار 14 اپریل 2024 15:00

میں نے تاریخ سے کیا سیکھا - ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2024ء) تاریخ کا مطالعہ خوشگوار ہوتا ہے اور کبھی یہ مجھے افسردہ کر دیتا ہے۔ اب تاریخ اتنی پھیل گئی ہے کہ اس کو سمجھنے کے لی اسے جگہ جگہ سے توڑ کر ادوار میں تقسیم کرنا ہوتا ہے۔

تاریخ میں مجھے ایک جانب انسان کی ذہنی تخلیقی صلاحیتیں، ہنر اور فن نظر آتا ہے۔ جن کی بنیادوں پر اس نے پتھر کے زمانے سے لے کر جدید دور تک ترقی کی، مگر اس ترقی کے پیچھے قوموں کی باہمی جنگیں ہیں۔

لوگوں کا قتل عام ہے۔ شہروں اور دیہاتوں کی بربادی ہے۔ انسان نے ترقی کی جو قیمت ادا کی ہے۔ کیا اس پر فخر کرنا چاہیے یا ماتم؟

تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ طاقتور قوموں ہی کو زندہ رہنے کا حق ہے۔ جو کمزور ہیں وہ یا تو غلام بن کر رہیں یا اپنی ذات کو ختم کر کے طاقتور کے وفا دار رہیں۔

(جاری ہے)

طاقتور کے پاس نہ انصاف ہوتا ہے اور نہ وہ کسی اخلاقی قدر کا لحاظ کرتا ہے۔

طاقت اس کے اقتدار کو جائز قرار دے دیتی ہے، اور تاریخ بھی اس کو اعلی مقام دے کر اس کے کارناموں کو بیان کرتی ہے۔

فلسفیوں میں یہ سوال رہا ہے کہ کیا انسانی فطرت بنیادی طور پر نیک ہوتی ہے یا شر میں ملوث ہوتی ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ قومیں اور افراد خود غرض ہوتے ہیں یہ اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔ اگر کوئی اخلاقی قدر ان کی راہ میں آ جائے، تو یہ اسے راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔

ان کا مقصد اپنی کامیابی ہوتا ہے۔

مورخ بھی دو قسم کو ہوتے ہیں۔ ایک وہ پیشہ ور مورخ جو حکمراں طبقے کی خوشنودی کے لیے تاریخ کو مسخ کرتے ہیں۔ واقعات کو بگاڑتے ہیں، اور تاریخ کے بیانیے سے غلط نتائج نکالتے ہیں۔ دوسرے وہ مورخ ہیں جو واقعات کی اصل کھوج نکالتے ہیں، اور تاریخ کو غلط بیانیے سے پاک کر کے حقائق کو سامنے لاتے ہیں۔ لیکن ان مورخوں کی کتابیں اور تحریریں ضائع کر دی جاتیں ہیں اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آگے چل کر ان کے نشانات ملیں۔

اس کی مثال ہندوستان میں 1857ء کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت تھی۔ چونکہ کمپنی نے بغاوت کا خاتمہ کر دیا، اس لیے اس نے اپنے نقطہ نظر سے بغاوت کی تاریخ لکھوائی۔ جس میں اس کے خلاف لڑنے والے ہندوستانیوں کو ظالم اور خونخوار بتایا۔ پھر اس کو ممنوع کر دیا کہ کوئی بھی ہندوستانی اس ہنگامے کی تاریخ نہیں لکھے گا۔ یہ گمشدہ تاریخ ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کے بعد سامنے آنا شروع ہوئی۔

لیکن اس کے باوجود اس واقع کی دستاویزات نہیں مل سکیں۔

یورپی سامراجی ملکوں نے ایشیا اور افریقہ پر حملے کر کے ان کے کلچر کو تباہ کیا۔ افریقہ سے غلاموں کو لے جا کر امریکہ میں ان کا کاروبار کیا۔ کالونیز کے کلچر کو مسخ کیا۔ لیکن ان جرائم کے باوجود کسی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ لاکھوں لوگ جنہیں غلام بنایا گیا تھا۔

جن کی نسلیں زندگی کی مسرتوں سے محروم، نسلی تعصب اور نفرت سے گزریں۔ ان کی اس اذیت کے جو ذمہ دار ہیں، آج بھی وہ اپنے ان جرائم کا اعتراف کرنے سے قاصر ہیں۔

تاریخ تو گزر جاتی ہے مگر واقعات کی تلخی باقی رہتی ہے۔ حملہ آور اپنے حملے اور دوسرے ملک پر قبضے کو جائز قرار دیتا ہے۔ یہودیوں کے ساتھ تاریخ میں جو کچھ ہوا وہ ایک المیہ ہے۔ لیکن آج یہی مظلوم یہودی اسرائیل میں فوجی طاقت بننے کے بعد فلسطینیوں پر جبر کر رہے ہیں۔

اگرچہ یہودیوں میں بڑے فلسفی، ادیب، سائنسدان، بڑے مفکر اور شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ مگر اس مسئلے پر تقریباً سب خاموش رہے ہیں۔ فرانس کے فلسفی سارتر نے ادب کا نوبل پرائز لینے سے انکار کر دیا تھا۔ مگر اس نے یروشلم کی جانب سے دیے جانے والے انعام کو قبول کر لیا تھا۔

اس لیے کبھی کبھی یہ سوال تنگ کرتا ہے کہ تاریخ جو تلخ یادیں چھوڑ جاتی ہے وہ نئے فسادات کی بنیاد بنتی ہیں۔

سربوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ کوسوو کی شکست کو سربوں نے بھلایا۔ آرمینیوں کے قتل عام کو، جو ترکی کی خلافت کے زمانے میں ہوا، اسے آج بھی اَرمینی باشندے یاد کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو تاریخ کا ہر صفحہ ان ہی جرائم کو محفوظ کیے ہوئے ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے موقع پر جو فسادات ہوئے تھے، اس کے زخم اب تک نہیں بھرے۔

ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک جانب سائنسدان ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کر رہے ہیں، جو افراد کو سہولت دے رہی ہے۔ مگر دوسری جانب یہی سائنسدان ایک کے بعد ایک مہلک ہتھیار بنا رہے ہیں۔ یہاں تک کے نیوکلیئر بم کی ایجاد نے دنیا کے خاتمے کا خطرہ پیدا کر رکھا ہے۔

آخر یہ سائنسدان کیوں انسانیت کے خاتمے کے لیے ایجادات کر رہے ہیں؟ ان میں کبھی قوم پرستی کا جذبہ ہوتا ہے۔

کبھی نظریاتی دباؤ ہوتا ہے اور کبھی اپنی ذہانت کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے نئے سے نئے مہلک ہتھیاروں نے لا تعداد معصوم انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا اور یہ خود جاگتے رہے اور ان میں کوئی اخلاقی شعور پیدا نہیں ہوا۔

اگر تاریخ یہی ہے کہ وہ ناانصافیوں، اخلاقی قدروں کی پامالی اور طاقتور قوموں کے ظلم اور ستم کو بیان کرتی رہے۔ کمزور قوموں کی آوازوں کو دباتی رہے تو کیا ایسی تاریخ ہماری راہنمائی کر سکے گی؟

کبھی کبھی میں اپنے ملک کے بارے سوچتا ہوں۔

ہم نے آمرانہ حکومتوں کو برداشت کیا۔ ان کے ظلم و ستم کو سہا اور جن افراد نے ان کے خلاف آواز اٹھائی انہیں قید و بند کی سزائیں دی گئیں، کوڑے مارے گئے۔ ان کے گھر والوں کو اٹھا کر غائب کر دیا گیا۔ ان کے مظاہروں اور جلوسوں پر گولیاں چلائیں جیسے کہ یہ ملک کے دُشمن ہوں۔

جن افراد نے ایمانداری اور دیانت کی زندگی گزاری انہیں سوسائٹی نے قبول نہیں کیا۔

اس لیے سوچتا ہوں کہ اگر ہم اپنی تاریخ کو، جیسی کہ وہ حقیقت میں ہے، بیان کریں گے تو ہمارے قومی ہیروز مجرم قرار پائیں گے، اور ہمارا حکمراں طبقہ نااہل اور بدعنوانی میں ملوث پایا جائے گا۔

کیا یہ تاریخ ہماری راہنمائی کرے گی؟ یا ہمیں اور تباہی کی جانب لے جائے گی؟ ریاستی مورخ یقیناً اس تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں۔ اصل واقعات کو چھپا رہے ہیں۔

مگر معاشرہ جس تجربے سے گزر رہا ہے اور جس اذیت سے دوچار ہے، وہ کبھی نہ کبھی تاریخی حقائق کو سامنے لائے گا۔ اور شاید اس کے بعد قوم نہ صرف حکمرانوں کی بدعنوانیوں کا جائزہ لے، بلکہ اپنے کردار کا بھی تجزیہ کرے جو اسے گمراہ کیے ہوئے ہے۔ شاید یہ تبدیلی ایک نئے دور کا آغاز ہو۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔