پاکستان اور ایران دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر متفق‘ درمیان تجارت اور مواصلاتی روابط بڑھانے پر تبادلہ خیال

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات‘وزیراعظم ہاﺅس پہنچنے پر معززمہمان کا شاندار استقبال‘ گارڈ آف آنر پیش کیا گیا‘ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کی جانب سے مشترکہ کوششوں پر اتفاق.وزیراعظم آفس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 22 اپریل 2024 14:35

پاکستان اور ایران دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مختلف شعبوں میں ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل۔2024 ) ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کی ہے وزیراعظم ہاﺅس سے جاری بیان کے مطابق دونوں راہنماﺅں نے ملاقات میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کی جانب سے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا. بیان میں بتایا گیا ہے کہ دونوں راہنماﺅں کے درمیان ایران پاکستان دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی اوردونوں راہنماﺅں نے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت اور مواصلاتی روابط بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال کیا.

(جاری ہے)

 

صدر رئیسی کا دورہ پاکستان سرکاری طور پر22 سے 24 اپریل تک شیڈول ہے ایرانی صدر کی اہلیہ اور اور اعلیٰ سطحی وفد بھی ان کے ہمراہ ہیں.

بیان میں بتایا گیا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان وفود کی سطح پر بات چیت کا دور بھی ہو گا اس سے قبل مارچ 2016 میں ایرانی صدر حسن روحانی نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا تھا اور اب آٹھ برسوں بعد ایران کے صدر کا دورہ پاکستان ہو رہا ہے. وزیراعظم ہاﺅس پہنچنے پر شہباز شریف نے ان کا استقبال کیا اور مہمان صدر کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیاقبل ازیں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اعلٰی سطحی وفد کے ہمراہ آج تین روز دورے پر اسلام آباد پہنچے .
وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے بھی معززمہمان سے ملاقات کی اس دوران ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تاریخ، ثقافت اور مذہب میں جڑے مضبوط دوطرفہ تعلقات ہیں ایرانی صدر کا دورہ دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے جاری بیان میں کہا کہ آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد کسی بھی سربراہ مملکت کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے اس سے قبل ممتاز زہرا بلوچ نے ایرانی صدر کے دورے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی وفد میں وزیر خارجہ اور کابینہ کے دیگر ارکان، اعلیٰ حکام کے علاوہ ایک بڑا تجارتی وفد بھی شامل ہو گا.

اپنے دورے کے دوران صدر رئیسی صدر اور وزیراعظم پاکستان سے اہم ملاقاتیں کریں گے ایرانی صدر چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی سے بھی ملاقات کریں گے دفتر خارجہ بیان کے مطابق صدرابراہیم رئیسی لاہور اور کراچی کا بھی دورہ کریں گے اور صوبائی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے ملاقاتوں میں پاک ایران تعلقات کو مزید مضبوط بنانے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا.

دفتر خارجہ کے بیان میں بتایا گیا کہ عوام سے عوام کے رابطوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کا وسیع ایجنڈا شامل ہیں دورے کے دوران علاقائی اور عالمی پیش رفت اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے دوطرفہ تعاون پر بھی بات چیت ہو گی اس کے علاوہ ’دو طرفہ ملاقاتوں میں تجارت، رابطے، توانائی، زراعت سے متعلقہ امور پر بات چیت کی جائے گی .

طے شدہ شیڈول کے مطابق وزیراعظم کی ایرانی صدر سے ملاقات کے بعد وزیراعظم آفس میں دونوں ملکوں کے درمیان ایم او یوز سائن کیے جائیں گے دستخطی تقریب کے بعد ایرانی صدر اور وزیراعظم پاکستان خطاب کریں گے وزیراعظم ہاﺅس میں ہی ایرانی وفد کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جائے گا جس کے بعد ایرانی صدر کی ملاقات صدر پاکستان سے ایوان صدر میں ملاقات ہو گی.
منگل کے روز صدر رئیسی لاہور جائیں گے نصف دن وہ لاہور گزارنے کے بعد کراچی روانہ ہوں گے لاہور اور کراچی میں گورنروں اور وزراءاعلی سے ملاقاتیں کریں گے ایرانی وفد کی تعداد 50 افراد کے قریب ہے دفتر خارجہ کے مطابق ایرانی صدر کے دورے کا مقصد دو طرفہ ملاقات ہیں یہ دورہ وزیراعظم پاکستان کے دعوت پر کیا جا رہا ہے دورے کا مقصد باہمی تعلق میں اعتماد کا فروغ بھی ہے.

ایرانی صدر کے دورے کی اہمیت پر برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے کہا کہ ایرانی صدر کا دورہ اسلام آباد دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے کے علاوہ موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرے گا. سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ جہاں تک بات ہے امریکی پابندیوں اور اسرائیل ایران تنازع، کیونکہ ایرانی صدر کا دورہ مہینہ پہلے سے پلان کیا گیا تھا جب ان واقعات کا وجود نہیں تھا اس دورے کو دو طرفہ دورے کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے بیرونی دنیا کی یقینی طور پر اس دورے پہ نظر ضرور ہو گی لیکن پاکستان کو اس کا کوئی منفی اثر ملنے کا امکان کم ہے بتایا جارہا ہے کہ ممکنہ طور پر صدر ابراہیم رئیسی پاکستانی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بھی ملاقات کریں گے.