ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران پاک ایران گیس پائپ لائن کا تذکرہ سامنے نہیں آسکا

کیا پاکستان مبینہ ممکنہ امریکی دباﺅمیں اس پر منصوبے پر بات کرنے سے گریزاں ہے یا یہ دونوں ممالک کا ایک سوچا سمجھا اقدام ہے؟موجودہ صورتحال میں دونوں ممالک کی جانب سے ایران، پاکستان گیس لائن منصوبے کا تذکرہ نہ کرنا ایک عقلمندانہ اقدام ہے.مبصرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 23 اپریل 2024 23:53

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران پاک ایران گیس پائپ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 اپریل۔2024 ) ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران توانائی بحران کو حل کرنے کے لیے اہم سمجھے جانے والے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے بارے میں مشترکہ پریس کانفرنس اور سرکاری پریس ریلیز میں اس اہم منصوبے کوئی تذکرہ نہیں ملتا نہ تو اس کا کوئی حوالہ وزیر اعظم ہاﺅس سے جاری اعلامیے میں سامنے آیا اور نہ ہی کسی وزیر یا مشیر کے بیان میں اس کا تذکرہ ملا.

(جاری ہے)

اس صورتحال کے بعد متعدد سوالات نے جنم لیا کہ اس اہم منصوبے پر خاموشی کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا پاکستان مبینہ ممکنہ امریکی دباﺅمیں اس پر منصوبے پر بات کرنے سے گریزاں ہے یا یہ دونوں ممالک کا ایک سوچا سمجھا اقدام ہے؟ اور اگر اس اہم منصوبے پر ہی بات نہیں ہو رہی تو دونوں ممالک کو ایرانی صدر کے اس دورہ پاکستان سے کیا فوائد حاصل ہوں گے؟پاکستان اور ایران کے درمیان 7.5 ارب ڈالرز مالیت کا گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے آخری دنوں میں اس وقت ہوا تھا جب ا±س وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ایران کا دورہ کیا ابتدائی طور پر پاکستانی حکام کی جانب سے اس منصوبے کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے اسے پاکستان کے توانائی کے بحران کا حل قرار دیا گیا تھا تاہم اس منصوبے کے افتتاح کے کچھ ہی عرصے بعد ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا.

سال 2013 میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت اور 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کے دور میں اس منصوبے پر کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی تاہم پی ڈی ایم حکومت کے دور میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس منصوبے پر کام کے لیے جنوری 2023 میں ایک کمیٹی قائم کی تھی اور پاکستان کی سابق نگران حکومت کی جانب سے ایک سال سے زائد عرصے کے بعد رواں برس فروری میں کابینہ کمیٹی برائے توانائی کی جانب سے اس منصوبے کے 80 کلومیٹر کے ایک حصے کی تعمیر کی منظوری دی تھی مگر اس کے فوراً بعد اس منصوبے پر امریکہ کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا تھا جس کی وجہ ایران پر بین الاقوامی پابندیاں قرار دی گئی تھیں اور امریکہ کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ منصوبے پر کام کرتے ہوئے پاکستان کو بھی معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے.

اس منصوبے پر تاخیر نے پاکستان کو پہلے ہی مشکل صورت میں ڈال رکھا ہے کیونکہ ایک طرف اپنے حصے پر پائپ لائن بچھانے کا کام نہ کرنے پر ایران کی جانب سے عالمی اداروں کے ذریعے پاکستان پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسری صورت میں امریکہ کی جانب سے پہلے سے کمزور پاکستانی معیشت پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی “کے مطابق انہوں نے اس حوالے سے حکومت کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن وفاقی وزیر پیٹرول و گیس مصدق ملک اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے متعدد بار رابطہ کرنے کی درخواستوں کے باوجود اس کا کوئی جواب نہیں دیا عالمی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق موجودہ صورتحال میں دونوں ممالک کی جانب سے ایران، پاکستان گیس لائن منصوبے کا تذکرہ نہ کرنا ایک عقلمندانہ اقدام ہے ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان پر امریکی پابندیوں کا دباﺅموجود ہے، لیکن میرے خیال میں یہ دونوں ممالک کا دانستہ فیصلہ ہے کہ اس دورے کے دوران اس معاملے پر خاموشی اختیار کی جائے انہوں نے کہا کہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایسی چیز پر بات کی جائے جو شروع ہونے کے لیے پوری طرح تیار ہی نہیں پاکستان کی بھی اس منصوبے سے متعلق پوری تیاری نہیں ہے اور ایران کی جانب سے بھی گیس کی قیمت کے تعین پر مسئلہ ہے، پاکستان کے ایران سے اس منصوبے سے متعلق دو مطالبے ہیں ایک گیس کی قیمت کا دوبارہ سے جائزہ لینا اور دوسرا گیس کی مستقل فراہمی ان کا کہنا تھا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق دونوں ممالک میں کچھ اہم مسائل ہیں جو ابھی حل طلب ہیں پاکستان کو اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے پیسے درکار ہیں جبکہ گوادر میں ابھی تک اس پائپ لائن بچھانے سے متعلق زمین کی الاٹمنٹ نہیں ہوئی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ پاکستان کو امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا خدشہ ہے.

ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ابھی تک امریکہ سے اس متعلق باضابطہ مذاکرات شروع نہیں کیے ہیں کہ گیس پابندیوں کے زمرے میں نہیں آتی اور یہ کہ پاکستان پابندیوں کی زد میں آئے بغیر اس منصوبے کو کیسے آگے بڑھا سکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب ایران کی طرف سے اس منصوبے کے تحت گیس کی قیمت کے تعین کا مسئلہ ہے اب تک ایران نے اس معاملے میں تاخیر کے باوجود خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے حصے کی گیس پائپ لائن بروقت تعمیر نہ کرنے پر پاکستان پر جرمانہ عائد کرنے کی کارروائی کا آغاز نہیں کیا ہے.

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے” بی بی سی“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر خاموشی کی وجہ دونوں ممالک کے ذمہ دار حکام ہی بہتر بتا سکتے ہیں تاہم بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ممالک اس منصوبے سے متعلق معاملات کو موجودہ صورتحال میں عوامی سطح پر نہیں لانا چاہتے انہوں نے کہا کہ اس منصوبے پر ابھی دونوں ممالک کی جانب سے کچھ مسائل ہیں اور میرے خیال میں دونوں ممالک نے یہ فیصلہ کیا ہے جب تک اس متعلق معاملات کو حل نہ کر لیا جائے تب تک اسے بلاوجہ عوامی سطح پر نہ لایا جائے ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ اس دورے کا اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ دورہ اس وقت شیڈول کیا گیا تھا جب رواں برس کے آغاز میں دونوں پڑوسی ممالک میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی.

ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق پاکستان اور ایران کے عالمی سطح پر نظریات ایک جیسے نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان عالمی فورمز پر ایرانی نظریات کا ساتھ دیتا ہے لیکن جغرافیائی قربت، ثقافتی اور مذہبی تعلقات، سرحد پار دہشت گردی اور سمگلنگ کے مسائل دونوں ممالک کو قریب لاتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اس دورے کا بنیادی مقصد معاشی معاملات پر اکٹھا ہو کر چلنے پر تھا پاکستان ایران سے برآمدات کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اور چاہے کشیدگی بھی ہو لیکن ہماری سرحدوں پر قائم بازاروں میں ترقی دیکھی گئی ہے اور اس دورے میں اس غیر روایتی تجارت کو چینلائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں تعلقات میں بہتری کی سیاسی خواہش موجود ہے لیکن اس میں اہم کردار دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور معیشت ادا کرے گی.

ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی بھی رائے میں ایرانی صدر کا یہ دورہ حالیہ ایران اسرائیل کشیدگی سے بہت پہلے طے ہوا تھا اور یہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں پیدا ہونے والی تلخی کے بعد طے کیا گیا تھا اس پس منظر میں یہ دورہ ضروری اور انتہائی اہمیت کا حامل اس لیے بھی تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو جو نقصان پہنچا تھا اسے دوبارہ سے بحال کرنے کی بہت ضرورت تھی امریکہ اور دیگر ممالک کے اس دورے پر خدشات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تعلقات کو استوار کرنے پر غور کرتا ہے اور اس پر کام کرتا ہے اگر امریکہ کو پاکستان اور ایران کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات پر خدشات ہیں تو یہ ان کے ملک کا اندرونی معاملہ ہے ہمارے یعنی پاکستان کے مفاد میں تو یہ ہے کہ اس کے تعلقات اس کے ہمسایہ ملک کے ساتھ اچھے رہیں.