پنجاب حکومت نے ڈیفیمیشن بل ایوان میں پیش کردیا ،سپیشل کمیٹی ون کے سپرد ،دو روز میں رپورٹ طلب

اپوزیشن کاگندم خریداری کے بحران پر حکومت پر کڑی تنقید ،درآمدی گندم کی تحقیقاتی رپور ٹ ایوان میں پیش کرینگے ‘ وزیر خوراک کسانوں نے 90 فیصد فروخت کردی ،مڈل مین کو فائدہ پہنچانے کیلئے حکومت اربوں روپے خرچ نہیں کر سکتی‘ بلال یاسین ایوان میں کچہ کے علاقے میں امن و امان کی ابتر صورتحال بھی زیر بحث آئی ،کچہ کا علاقہ دس سال سے یرغمال ، آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے‘ اسپیکر

پیر 13 مئی 2024 22:05

�اہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 مئی2024ء) پنجاب حکومت نے ڈیفیمیشن بل ایوان میں پیش کردیا جسے اسپیکر نے سپیشل کمیٹی ون کے سپرد کرتے ہوئے دو روز میں رپورٹ طلب کر لی ، اپوزیشن نے گندم خریداری کے بحران پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ،وزیر خوراک بلال یاسین نے کہا کہ گندم درآمد کے حوالے سے وزیر اعظم کی تشکیل کردہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو ایوان میں پیش کریں گے ،کسانوں نے 90 فیصد فروخت کردی ہے،جب کسان کے پاس گندم نہیں ہے تو مڈل مین کو فائدہ پہنچانے کیلئے حکومت اربوں روپے خرچ نہیں کر سکتی ہے،ایوان میں کچہ کے علاقے میں امن و امان کی ابتر صورتحال بھی زیر بحث آئی ،اسپیکر نے کہا کہ کچہ کا علاقہ دس سال سے یرغمال بنا ہوا ہے ، آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے ۔

پنجاب اسمبلی کااجلاس مقررہ وقت کی بجائے 2گھنٹے 30منٹ کی تاخیر سے اسپیکر ملک محمد احمد خان کی صدارت میں شروع ہوا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں صوبائی وزیر بلال یاسین نے محکمہ خوراک اور صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمان نے محکمہ خزانہ سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔ اجلاس میں حکومتی رکن امجد علی جاوید سرکاری ملازمین کی دوران سروس وفات کے بعد لواحقین کو مراعات اور پنشن کے معاملے پر پھٹ پڑے۔

انہوں نے کہا کہ سیکرٹری کو سات کروڑ کی گاڑی مل سکتی لیکن غریب ملازم کو وفات کے بعد پچیس ہزار ہی کیوں ملتا ہے۔وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ سرکاری ملازم کو پچیس ہزار روپے پنشن نہیں مل رہی بلکہ پنجاب سول سروس پنشن کے قانون4.6(2)اے کے مطابق پنشن دی جاتی ہے، اگر کوئی سرکاری ملازم چھ سال مدت ملازمت کرنے پر وفات پا جاتا ہے تو لواحقین کو ایک مکمل سروس سال کے عوض چھ سال کی مدت تک ڈیڑھ تنخواہ کے تناسب سے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے، آخری تنخواہ کی بنیادی تنخواہ کا ڈیڑھ فیصد اور کل سالوں کے حساب سے پنشن دی جاتی ہے۔

رکن اسمبلی امجد علی جاوید کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے کہا کہ ادارے اور محکمے جو مقدمات عدالتوں میں دائر کرتے ہیں ، وکیلوں کو فیسوں کی مد میں رقوم مختلف سالوں میں مختلف ہوتی ہے،مختلف محکمہ جات یہ کورٹ فیس اپنے بجٹ میں سے ادا کرتے ہیں، مقدمات کے اخراجات کیلئے اگر کسی تحصیل ضلع یا محکمہ کو مزید کسی فنڈز کی ضرورت ہوتو محکمہ خزانہ بغیر کسی رکاوٹ کے پیسے جاری کر دیتا ہے۔

ا سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا کہ کورٹ فیس عدالتوں میں غیر ضروری مقدمات کی روک تھام کیلئے لگائی جاتی ہے۔ وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ کورٹ فیس کا سارا معاملہ محکمہ ریونیو سے متعلق ہے ، اگر محکمہ ریونیو کو ہدایت جاری کریں تو یہ فیس ختم بھی ہو سکتی ہے۔امجد علی جاوید کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین نے بتایا کہ صوبے کو پندرہ ملین میٹرک ٹن گندم کی ضرورت ہوتی ہے،محکمہ خوراک نے دسمبر میں تین خطوط وفاق کو لکھ دئیے تھے کہ باہر سے گندم درآمد نہ کی جائے،گندم درآمد پر وزیر اعظم نے جو کمیٹی بنائی ہے اس میں صوبائی سیکرٹری خوراک بھی شامل ہیں،اس کمیٹی کی جو رپورٹ آئے گی اسے ایوان میں پیش کریں گے۔

پرائیویٹ سیکٹر نے گندم خریدی ہے اور ذخیرہ کر لی،جب 23لاکھ میٹرک ٹن گندم کی ریلیز نہیں ہوئی تو وفاق کو لکھ دیاتھا۔وزیر خوراک نے مزید کہا کہ دس سال پہلے بھی گندم سرپلس ہوئی تھی حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ گندم کو ریگولیٹ کر سکے،گندم برآمد کی جا سکتی تھی لیکن وہ آدھی قیمت پر برآمد ہونی تھی۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے بینکوں کو اس سال گندم کے قرض کی مد میں 300روپے دینے ہیں ،اگر حکومت مزید گندم لے تو اگلے سال 900ارب دینا پڑے گا۔

ا،سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹرکی جانب سے گندم درآمد کرنے کی وجہ سے مارکیٹ میں گندم سرپلس ہوگئی،پرائیویٹ سیکٹر نے گندم درآمد کرلی ان کی ضرورت وہاں سے پوری ہوگئی۔وزیر خوراک بلال یاسین نے مزید کہا کہ حکومت جب 3900روپے میں فی من گندم خریدتی ہے تو سود اور دیگر اخراجات کی وجہ سے یہ گندم 4700روپے فی من حکومت کو پڑتی ہے،اگر حکومت گندم کو ایک سال اور زیادہ سٹوریج میں رکھے تو اس کے اخراجات اور بڑھ جائیں گے ،اس طرح حکومت غریب کیلئے روٹی مہنگی کرنے کا باعث بنے گی ۔

صوبائی وزیر نے انکشاف کیا کہ اب بھی حکومت کے پاس گوداموں میں 22لاکھ 71ہزار ٹن گندم موجود ہے۔دوران اجلاس قائد حزب اختلاف احمد خان بھچر کے شرقپور میں فائرنگ سے نوجوان کے قتل کے توجہ دلائونوٹس پرپارلیمانی امور کے وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمن نے ایوان کو یقین دہانی کرادی کہ ڈی پی او اور آئی جی سے جواب لے کر ایوان کو آگاہ کروں گا۔رکن اسمبلی سعید اکبر نووانی اور رانا محمد اقبال نے چیئر کی توجہ دلائی کہ توجہ دلا ئونوٹسز پیش کرنے کے موقع پر آئی جی پنجاب اور متعلقہ آر پی او اور ڈی پی او گیلری میں موجود ہوتے تھے، ۔

جس پرا سپیکر نے رولنگ دی کہ آئندہ اسمبلی سیکرٹریٹ متعلقہ سٹاف کی حاضری کو یقینی بنائے۔ ا،سپیکر نے کہا کہ بھارت میں توجہ دلا نوٹس کا جواب آج بھی وزیر اعلی دیتا ہے،پنجاب اسمبلی میں ترمیم کے بعد وزیر قانون یا پارلیمانی امور توجہ دلا نوٹس کا جواب دے سکتا ہے،وزیر پارلیمانی امور نے کہا کہ اسمبلی کی روایت ہے کہ توجہ دلا نوٹس پر آر پی او یا ڈی پی او موجود ہوتے رہے۔

اس موقع پرسپیکر اسمبلی نے توجہ دلا نوٹس پر متعلقہ آر پی او یا ڈی پی او کو گیلری میں حاضری کی رولنگ دیدی۔پیپلز پارٹی کے رکن رئیس نبیل نے نقطہ اعتراض پر کچہ کے علاقہ میں آپریشن کی وجہ سے دریا کے کمزور ہونے والے بند کی طرف ایوان کی توجہ دلائی۔جس پر اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ کچہ کا علاقہ دس سال سے یرغمال بنا ہوا ہے ، وہاں آہنی ہاتھ سے نمٹیں۔

صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ امن و امان کے قیام کیلئے فورسز کو جدید آلات دئیے ہیں ، پولیس نے کچہ کے علاقہ میں آپریشن کرکے بہت اچھا کام کیا۔ سعید اکبر نوانی نے کہا کہ آٹھ ماہ سے ڈاکوئوں نے جنگ شروع کر رکھی ہے جو غلط پلاننگ سے ہوئی ہے،غلط پلاننگ کی وجہ سے لوگوں کو ڈاکو بنایا گیا، کچہ میں آپریشن سے ڈاکو مضبوط اور حالات خراب ہوئے،کچہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ،پولیس کی کارکردگی صرف کاغذوں پر محدود ہے۔

اسپیکر ملک محمد احمد خان نے کہا کہ ڈاکوئوں کی فائرنگ سے بند ٹوٹا اگر تحفظ نہ دیا تو محکمہ ایریگیشن کام نہیں کر پائے گا۔ا سپیکر اسمبلی نے ممبران اسمبلی کے متعدد بار نوٹس دلوانے پر دیہاتوں میں کوڑے کرکٹ کے مسائل پر بدھ کے روز عام بحث کااعلان کر دیا اور متعلقہ وزیر کو ہدایت کی کہ وہ مکمل تیاری کے ساتھ محکمہ کے افسران کو ساتھ آئیں۔ اجلا س میں سرکاری کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے پنجاب اسمبلی میں دی پنجاب ڈیفیمیشن بل 2024پیش کر دیا جسے اسپیکر نے سپیشل کمیٹی ون کے سپرد کرتے ہوئے دو روز میں رپورٹ طلب کر لی ۔

وزیر خوراک بلال یاسین نے گندم کی خریداری پر عام بحث کا آغاز کرتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ پنجاب میں کل 22ملین میٹرک ٹن گندم کی فصل ہوتی ہے جس میں سے 4ملین میٹرک ٹن محکمہ خوراک کو لینی تھی،ہماری تیاری چار ملین میٹرک ٹن گندم کی نہیں بلکہ دو ملین میٹرک ٹن کی تھی،دو ملین میٹرک ٹن سے زیادہ نہیں خرید سکتے تھے،،جب ہم نے گندم خریدی تو گندم میں نمی تھی، وزیر اعظم کی گندم درآمد پر رپورٹ آئے گی تو اسے ایوان میں پیش کروں گا، پھر بتائوں گا کہ پنجاب کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں،وزیر اعظم نے ایم ڈی پاسکو سمیت چار افسران کو گھر بھیج دیا ہے کیونکہ نمی کے نام پر کچھ شکایات آئی تھیں۔

جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹرز گئے جہاں گندم کے معاملے پر ان سے بات کی ،3900روپے فی من پر بھی کسان مطمئن نہیں، نوے فیصد گندم فروخت ہو چکی ہے تو پھر پیسے مڈل مین کو کیسے دیدیں،بائیس لاکھ میٹرک ٹن گندم حکومتی گوداموں میں موجود ہے ، کسان جو اس وقت گندم پر سیاست کررہے ہیں وہ مجھ سے بات کریں ،پاکستان کے حالات کے مطابق بات کریں گے،امریکہ میں بھی فنگس پر گندم سمندر برد کر دی گئی تھی، کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ گندم کو ضائع کر دیں اب اس گندم کو کھانا ہے، گندم پر سیاست نہ کریں حل پر بات کریں۔

انہوںنے کہا کہ پنجاب کے پانچ لاکھ لوگوں کو کسان کارڈ دیں گے۔پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچر نے گندم کی خریداری پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے 13جولائی کو گندم پر واردات شروع کی،پینسٹھ کمپنیاں گندم درآمد میں ملوث ہیں ،کیا ان کمپنیوں کا آڈٹ ہو سکتا ہے،اس حکومت کا کردار سوائے پی ٹی آئی کے لوگوں کو پکڑنے اور پولیس کے ذریعے مقدمہ بنانے کے علاوہ کچھ نہیں، پاسکو کہاں گئی ،حکومت چالیس لاکھ ٹن گندم خریدتی تو کسان کیلئے قیمت مستحکم قیمت ہوتی تھی، حکومت نگہبان آٹے سے شروع ہوئی اب بات کسان پر ختم ہوئی ،کسان کو قتل کرکے سمندر میں پھینک دیں اگلی بات پر مٹی ڈالیں، کسانوںکے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے پندرہ سے بیس فیصد کاٹن کاشت نہیں ہوئی ، میں نے حکومت کو گندم خریداری پر پانچ تجاویز دیں جن کو اسپیکر نے بھی تسلیم کیا لیکن عمل کوئی نہیں کیا، پچھلے سال حکومت لوگوں کی گندم ضبط کررہی تھی،فارم سینتالیس والی جعلی حکومت جس کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہے، لوگ سڑکوں پر جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں، گندم کی پالیسی پر کیا بات کریں حکومت تو گندم خرید ہی نہیں رہی، گل ودھ گئی گندم کی خریداری ان کو لے ڈوبے گی،یہ ٹک ٹاک پر حکومت کررہے ہیں ۔

اگر افغان بارڈر کھل جائے گا تو آج جوگندم 2400میں مل رہی تب 6ہزار فی من میں فروخت ہو گی، اکتوبر میں روٹی کی قیمت آٹ آف کنٹرول ہوجائے گی،وزیر موصوف پرانے وزیر ہیں ان کو سب کچھ پتہ ہے لیکن یہ نظروں کو دھوکہ دے رہے ہیں، لوگ اللہ کو ان کی شکایت کررہے ہیں،تیراں جولائی سے اب تک گندم سکینڈل کی کیوں تحقیقات نہیں کروائی ، اس طرف جا رہے ہیں جہاں واپسی کا راستہ نہیںہوگا ،لوگ بھوک سے حکومت کا گریبان پکڑیں گے۔

گندم خریداری پر عام بحث میں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں سے اراکین نے حصہ لیا ۔حکومتی رکن عمران اکرم نے کہا کہ سپورٹ پرائس کا اعلان کرکے کسان کو سپورٹ کیاجاتاہے لیکن حکومت مسلسل روگردانی کررہی ہے، حکومت نے کسانوں کے ساتھ 3900روپے فی من کا معاہدہ کیا جس کی مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے، حکومت کہتی رہی کہ دو ملین ٹن یا چھ ایکڑ والے کسان سے گندم خریدیں گے لیکن ایک دانا بھی نہیں خریدا گیا۔

اپوزیشن رکن حسن اقبال بٹر نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسان 4ہزار فی من کا سوچ کر بیٹھے تھے لیکن جو حالات ہیں وہ اپنی گندم 2800روپے فی من پر فروخت کرنے کے لئے تیار ہیں،گندم پر مبہم پالیسی ہے ،وزیر خوراک بتا ہی نہیں رہے کہ وہ گندم خریدیں گے یا نہیں۔ایجنڈا مکمل ہونے پر سپیکر ملک محمد احمد خان نے اجلاس بدھ کی دوپہر دو بجے تک کیلئے ملتوی کردیا۔