Live Updates

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی پر مشتمل پانچ رکنی لارجربنچ کی سماعت جاری

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 14 مئی 2024 12:35

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14مئی۔2024 ) سپریم کورٹ نے نیب ترامیم فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا ہے جو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں آج سماعت کر رہا ہے. پانچ رکنی لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں گذشتہ برس 31 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے نیب ترامیم فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کرتے ہوئے نیب عدالتوں کو زیرسماعت مقدمات کے حتمی فیصلے سے روک دیا تھا.

چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا تھا کہ نیب ترامیم کیس کے فیصلے کو معطل نہیں کریں گے صرف احتساب عدالتوں کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکیں گے اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے چار نومبر کو جاری تحریری حکم نامے میں کہا کہ عمران خان نیب ترامیم میں مرکزی درخواست گزار ہیں، اس لیے حکم نامے کی نقل انہیں بھی جیل میں پہنچائی جائے . نجی ٹی وی کے مطابق عدالت نے عمران خان سمیت تمام فریقوں کو نوٹس جاری کیے ہیں عدالت نے معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا ہے عدالت نے صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کیے تھے تحریری حکم نامے میں سابق وزیراعظم عمران خان کو نوٹس بذریعہ جیل سپریٹنڈنٹ بھجوانے کا حکم دیا گیا تھا.

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد تک سماعت ملتوی کر دی تھی سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ گذشتہ برس 15 ستمبر کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل جاری کیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے بے نامی کی تعریف، آمدن سے زائد اثاثوں اور بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی نیب ترمیم کالعدم قرار دے دی تھی اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں جبکہ عدالت نے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کر دیے اور انہیں احتساب عدالت میں بھیجنے کا حکم دے دیا، نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم جاری کردیا.

فیصلہ تین رکنی بنچ نے سنایا چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا گذشتہ برس17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی اپیل میں فیڈریشن، نیب اور چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بنایا گیا تھا جبکہ 15 اکتوبر کو درخواست گزار زبیر احمد صدیقی نے بھی پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی.

تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے سال 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت سابق حکومت کی متعارف کردہ نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا جس کی سماعت سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے کی تھی‘نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کیا گیا تھا تاہم صدر عارف علوی نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے جون 2022 قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری دی تھی.

نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کرسکے گا نیب ترمیمی بل کے تحت احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا گیا تھا جبکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں 3 سالہ توسیع کی جا سکتی تھی نیب قانون کے سیکشن 16 میں بھی ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت جہاں جرم کا اتکاب ہوگا اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چل سکے گا.

بل میں سیکشن 19 ای میں بھی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت نیب کو ہائی کورٹ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔

(جاری ہے)

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا. نیب ترمیمی بل کے تحت ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی جبکہ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکیں نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا.


Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات