تمباکو پر باقاعدگی سے ٹیکسز میں اضافہ اسے روکنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ،مرتضیٰ سولنگی

تمباکو ٹیکسز پر چالیس فیصد اضافے سے حکومت کو 96ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو سکے گا،سابق نگران وفاقی وزیراطلاعات کا تقریب سے خطاب

منگل 28 مئی 2024 21:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مئی2024ء) سابق نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ تمباکو پر باقاعدگی سے ٹیکسز میں اضافہ اسے روکنے میں بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے جس سے نہ صرف حکومت کو اضافی ریونیو حاصل ہوگا بلکہ صحت پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی خاطر خواہ کمی ہو سکے گی۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہاربچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سپارک کے زیراہتمام مقامی ہوٹل میں ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ تمباکو ٹیکسز پر چالیس فیصد اضافے سے حکومت کو نہ صرف 96 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو سکے گا بلکہ اس سے تمباکو نوشی سے منسلک صحت کے اخراجات پر بھی نمایاں اثر پڑے گا جو 615بلین روپے سے کم ہو کر 418.2بلین روپے رہ جائے گا جس سے آمدنی اور صحت کے اخراجات کے درمیان فرق کو موثر طریقے سے 82ارب روپے تک کم کیا جائے سکے گا،تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے بچوں کے محفوظ اور بہتر مستقبل کیلئے ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہونا پڑے گا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر کمپین فار ٹوبیکو فری کڈز کے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد نے کہا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نیپاکستان کو سگریٹ کیلیے سنگل ٹائر ٹیکس کا ڈھانچہ متعارف کرانے کی سفارش کی ہے، ٹیکسوں میں اضافے کی کوششوں کے باوجود سگریٹ کی کم قیمتیں برقرار ہیں، جس سے کھپت کی بلند سطحوں میں اضافہ ہوتا ہے،ان اصلاحات کو اپنا کر پاکستان سگریٹ پر ٹیکس کو مزید موثر بنا سکتا ہے اور اسے بین الاقوامی بہترین طریقوں کے ساتھ زیادہ قریب سے ہم آہنگ کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سگریٹ کی قیمتیں اب بھی دنیا کے کئی حصوں سے سستی ہیںاس طرح کا نقطہ نظر ٹیکسوں کی پالیسیوں کی تشکیل میں زیادہ ہدف اور شواہد پر مبنی حکمت عملی کی اجازت دیتا ہے جس کا مقصد صحت عامہ کے اقدامات کیلیے زیادہ سے زیادہ آمدنی کے ساتھ تمباکو کے استعمال کو روکنا ہے۔ ملک عمران نے کہا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے ناجائز مارکیٹ شیئر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے انڈسٹری کو ٹیکس سے بچنے، ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کرنے اور صحت عامہ پر منافع کو ترجیح دینے کیلیے پیداوار کو کم رپورٹ کرنے کے لیے پایا گیا ہے۔

سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر(ایس پی ڈی سی)کے مینیجنگ ڈائریکٹر محمد آصف اقبال نے کہا کہ قیمتوں میں تبدیلی کے بارے میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کاردعمل پاکستان میں سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کیلیے ٹیکس لگانے کے بہت زیادہ امکانات کی نشاندہی کرتا ہے سگریٹ پر ایف ای ڈی میں حالیہ اضافے اور قیمتوں میں اسی طرح اضافے کے نتیجے میں سگریٹ کی کھپت میں 19.2% کی کمی واقع ہوئی ہے اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں سگریٹ کی کھپت میں کمی آئی ہے۔

وہ SPDC کی جانب سے تمباکو نوشی کرنے والوں کے ملک گیر سروے کے ابتدائی نتائج پیش کر رہے تھے۔ آصف اقبال نے کہا کہ سگریٹ کی کھپت میں نمایاں کمی کے علاوہ، سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ سگریٹ نوشی کرنے والوں نے زیادہ قیمت والے برانڈز سے کم قیمت والے یا اکانومی برانڈز کی طرف رخ کیا ہے سگریٹ کی مارکیٹ میں اس وقت اکانومی برانڈز کا غلبہ ہے، اکانومی برانڈز کا حصہ22 -2021 میں 80 فیصد سے بڑھکر 24-2022 میں 94 فیصد ہو گیا ہے۔

دیہی علاقوں میں سستے برانڈز کی طرف تبدیلی زیادہ نمایاں ہے، جہاں شہری علاقوں میں 88 فیصد کے مقابلے اکانومی برانڈز کا حصہ 97 فیصد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اکانومی برانڈز کے اندر، کم از کم قیمت کے قریب بینڈز کی کھپت 16 فیصد سے بڑھ کر 46 فیصد ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب کہ ملک میں کھلے سگریٹ کی فروخت پر پابندی ہے، سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 35فیصد تمباکو نوشی کرنے والوں نے کھلے سگریٹ خریدنے کی اطلاع دی ہی: یہ تناسب دیہی علاقوں(31فیصد)کے مقابلے شہری علاقوں (44فیصد) میں زیادہ ہے مزید یہ کہ 26.7فیصد تمباکو نوشی کرنے والوں کی طرف سے خریدے گئے سگریٹ کے پیک کی قیمت حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم قیمت سے کم تھی۔

اس تجزیہ کو پالیسی ساز سگریٹ ٹیکس کی پالیسیوں میں اصلاحات اور ملک میں سگریٹ کی کھپت کو کم کرنے کیلئے موثر طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔