ہتک عزت بل صحافیوں کیلئے نہیں بنا ۔ صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات

گوگل تین لاکھ طلبا و طالبات کو سرٹیفائیڈ کررہا ہے، گوگل ٹیم پاکستان آئے گی

Irfan Feroz Awan عرفان فیروز اعوان پیر 10 جون 2024 17:28

لودھراں( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 10 جون 2024ء ) صوبائی وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات نے کہا ہے کہ ترقی کی جو کہانیاں ملکوں کے بارے میں سنتے ہیں وزیراعلی ٰمریم نواز شریف  کی قیادت میں ہم وہ کہانی لکھنا چاہتے ہیں رانا سکندر حیات نے یہ بات لودھراں میں سیاسی و سماجی شخصیت رانا علی شوال ان کے چچا ایم پی اے ڈاکٹر رانامحمد  طارق خان  کی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے ملتان سے پیپلزپارٹی کے ایم پی اے رانا اقبال سراج ، خانیوال سے ن لیگ کے ایم پی اےرانا سلیم اور جلالپور پیروالا سے ن لیگ کے ایم پی اےنازک کریم لانگ اور رانا ولی الرحمان بھی ان کے ہمراہ تھے۔

رانا سکندر حیات نے مزید کہا کہ پنجاب میں طلبا و طالبات کو صرف سائنس اور آرٹس میں میٹرک اور ایف ایس سی کا علم ہے اس  سے ہٹ کرمیٹرک ٹیک اورانٹرٹیک تعلیم لے کر آرہےتاکہ طلبا و طالبات کوٹیکنالوجی پڑھائی جاسکے ہم اپنے نوجوانوں کو سکلز دینا چاہتے ہیں تاکہ دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرسکیں  ہمارے نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بین الاقوامی سرٹیفیکیشن کا نہ ہونا ہے گوگل کی ٹیم جلد ہی پاکستان آرہی ہے اور وزیر اعلیٰ مریم نواز سے ملاقات کرے گی گوگل تین لاکھ طلبا و طالبات  کو سرٹیفائیڈ کررہا ہےٹیچرز اور طلبا و طالبات کو بھی گوگل سے سرٹیفائیڈ کروائیں گےرانا سکندر حیات نے کہا کہ پہلی مرتبہ سرکاری اسکولوں کے طلبا و طالبات کے رزلٹ کارڈز ان کے گھر جائیں گے  گذشتہ تین سال میں آئی ٹی ایکسپورٹ ایک ارب سے تین ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔

(جاری ہے)

آئی ٹی سٹی میں دنیا کے کئی ٹاپ ادارے پاکستان آرہے ہیں پنجاب کے 8 اضلاع ایسے ہیں جہاں یونیورسٹیاں نہیں ہیں وزیر اعلیٰ کی پہلی ترجیح ہے کہ ان 8 اضلاع میں یونیورسٹی کا فعال کیمپس ہونا چاہیے ۔ہتک عزت بل  بارے گفتگو کرتے ہوئے رانا سکندر حیات نے کہا کہ جب ہمیں اس بل بارے بریفنگ دی گئی تو ایک مرتبہ بھی جرنلزم کا ذکر نہیں ہوا۔میں آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ہر شہری کو  آزادی سےبولنے کی اجازت ہونی چاہیے ۔

یہ بل خبر چلانے کے لیے نہیں بنا اس ملک میں نظام یہ ہے کہ تاریخ لے لو، پیش کردو سال کی تاریخ دلوا دو اس کو ہم نے ٹائم باونڈ کیا ہے تا کہ اگر کوئی ایشو غلط یا سہی ہے اس کا فیصلہ کردیا جائے۔یہ نہ کریں کہ چار چھ سال کیس چلائیں اور اس کے بعد کیس اگلے کورٹ میں اور جب تک کیس کا فیصلہ آئے  توبندہ ہی شاید اس دنیا میں نہ ہو۔