ہتک عزت قانون کی تین شقوں پر عملدرآمد عدالتی فیصلے سے مشروط

لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا

Sajid Ali ساجد علی منگل 11 جون 2024 10:10

ہتک عزت قانون کی تین شقوں پر عملدرآمد عدالتی فیصلے سے مشروط
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 11 جون 2024ء ) لاہور ہائیکورٹ نے ہتک عزت قانون کی تین شقوں پر عملدرآمد عدالتی فیصلے سے مشروط کردیا۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں پنجاب میں ہتک عزت کے قانون کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی جہاں مختلف شہریوں نے ندیم سرور ایڈووکیٹ کی وساطت سے درخواست دائر کی، لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے درخواستوں پر سماعت کی، عدالت نے استفسار کیا کہ ’یہ قانون کیسے آزادی اظہار رائے اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے؟‘، اس پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ ’اس قانون کے مطابق آپ بغیر ثبوت کے بھی کاروائی کرسکتے ہیں‘، جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیئے کہ ’اگر چیف منسٹر کوئی بیان دے تو آپ اس کو عدالت میں لے آئیں یہ غلط بات ہے‘۔

وکیل درخواست گزار نے جواب دیا کہ ’چیف منسٹر جھوٹ نہ بولیں، وزیر اطلاعات پنجاب صبح سے لے کر شام تک جھوٹ بولتی ہیں، اس قانون میں ٹرائل سے قبل ہی ملزم کو 30 لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے‘، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ’قانون کے مطابق تیز ترین انصاف کی فراہمی کے لیے یہ ہوسکتا ہے‘، اس موقع پر پنجاب حکومت کے وکیل نے درخواستوں کی مخالفت کردی، جس پر پر جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ ’چیف جسٹس کوئی نام تجویز کرکے بھیجے تو ہوسکتا ہے حکومت کہے یہ نام ہمارے فلاں وزیر کو پسند نہیں ہیں، یہ کوئی سودے بازی یا دوکانداری تو نہیں ہے‘۔

(جاری ہے)

بعد ازاں عدالت نے ہتک عزت کے قانون کے تین سیکشن پر عملدرآمد عدالتی فیصلے سے مشروط کردیا، لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے قانون کے سیکشن 3 ،5 اور 8 پر عمل درامد عدالتی فیصلے سے مشروط کیا گیا ہے، عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو معاونت کے لیے نوٹسز بھی جاری کیے، عدالت نے پنجاب حکومت سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔