دہشتگرد ہوں یا کچے کے ڈاکو، مذاکرات کے بعد اب آپریشن کے علاوہ کوئی چارہ نہیں

پی ٹی آئی دور میں مذاکرات ہوئے کہ طالبان کو واپسی کا موقع دیا جائے ، جو لوگ واپس آئے وہ کل 5 ہزار تک ہیں،انہیں آہنی ہاتھوں سے نہ لیا جائے جنہوں نے پورے ملک کو یرغمال بنایا ہوا؟ وفاقی مشیر رانا ثناء اللہ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 25 جون 2024 00:18

دہشتگرد ہوں یا کچے کے ڈاکو، مذاکرات کے بعد اب آپریشن کے علاوہ کوئی چارہ ..
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 جون 2024ء) وفاقی مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ دہشتگرد ہوں یا کچے کے ڈاکو، مذاکرات کے بعد اب آپریشن کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، پی ٹی آئی دور میں مذاکرات ہوئے کہ طالبان کوواپسی کا موقع دیا جائے ، جو لوگ واپس آئے وہ کل 5 ہزار تک ہیں، انہیں آہنی ہاتھوں سے نہ لیا جائے جنہوں نے پورے ملک کو یرغمال بنایا ہوا؟ان سے مذاکرات بھی ہوئے جو ناکام ہوچکے، اب آپریشن کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کی مخالفت برائے مخالفت ، کسی چیز کو سمجھے بغیر مخالفت کی جارہی ہے، پورے ملک میں بالخصوص خیبرپختونخواہ میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن پہلے ہی جاری ہے۔

(جاری ہے)

انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن روز ہورہے ہیں، ان آپریشنز کی شدت کا اندازہ لگائیں گے آئے روز خبر آتی کہ ہمارے جوان اور افسر شہید ہورہے ہیں، جس آپریشن میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیز ، یا سکیورٹی فورسز کے جوان شہید ہورہے ہوں، اس سے بڑی قربانی اور کیا ہوسکتی ہے؟ آپریشن جاری ہے، اب اس آپریشن کو عزم استحکام کا نام دیا گیا ہے تو اس کا مطلب کہ دہشتگردی کے خلاف آپریشن جاری ہے لیکن اس میں کچھ ایسی قوتیں جو عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں ، ان کو بھی نشانے پر رکھا جائے گا، باقی کئی نئے سرے سے آپریشن کا آغاز نہیں ہونے جارہا۔

ایک دہشتگرد ہیں جو طالبان ہیں، طالبان وہ نہیں جو وہاں سے اٹھ کر یہاں کاروائیاں کرتے ہیں، ان کو کوئی توسہولتکار ہوتا ہے، سکیورٹی فورسز کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں بھتہ خوری کرتے ہیں، خیبرپختونخواہ میں کچھ لوگ طالبان کا روپ دھار کر بزنس کے طور پر سہولتکاری کرتے ہیں،ضرورت ہے ایسے تمام عناصر کو قلع قمع کیا جائے، کیونکہ سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو پھر معاشی استحکام کیسے آئے گا؟ ملک کو تو آگے بڑھنا ہی بڑھنا ہے۔

 
اس موقع پر سینئر رہنماء پی ٹی آئی ہمایوں مہمند نے کہا ہے کہ جنرل کیا نی اور جنرل راحیل کے وقت میں بھی ایک آپریشن ہو اتھا۔ان تمام آپریشن کے بعد ہم آج کہاں کھڑے ہیں؟ہماری حکومت کے درمیان کم حملے ہورہے تھے، مسائل کا حل صرف آپریشن نہیں، اور بھی حل ہے۔ مجھے لگتا ہے آپریشن کسی اور کانام دے کر کچھ اور کرنا چاہتے ہیں، کہتے جو عدم استحکام چاہتے ان کیخلاف بھی آپریشن ہوگا، استحکام یا عدم استحکام کا فیصلہ کون کرے گا ۔