لاہور ہائیکورٹ نے جامعہ زرعیہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں کے خلاف کرپشن کی ایف آئی آر کالعدم قرار دیدی

ہفتہ 13 جولائی 2024 21:20

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 جولائی2024ء) لاہور ہائیکورٹ نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں کے خلاف اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ فیصل آباد ریجن میں درج ایف آئی آر کو کالعدم قرار دے دیا۔یونیورسٹی کے ترجمان نے ہفتہ کو بتایا کہ جامعہ زرعیہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں اور سابق رجسٹرار چوہدری محمد حسین نے غیر فعال وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اشرف،غیر فعال پرووائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا اور دیگر کی شکایت پرتھانہ انسداد بدعنوانی فیصل آباد ریجن میں تعزیرات پاکستان کی دفعات420،471،409،468 اور انسداد بدعنوانی ایکٹ 1947کی دفعہ 5(2) کے تحت درج ایف آئی آر کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی اور بتایا کہ یہ ایف آئی آر مخالفین کے ناپاک ارادوں اور مذموم مقاصد پر مبنی ہے۔

(جاری ہے)

ترجمان نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس اسجد جاوید گھرال نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ کیا کہ ایف آئی آر میں تین الزامات لگائے گئے ہیں۔ یہ تمام الزامات زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خان کے خلاف ہیں جبکہ سابق رجسٹرار چوہدری محمد حسین کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے اور انہیں اس مقدمہ میں حقائق کا نوٹس لئے بغیر شامل کرلیا گیا ہے۔

فاضل جج نے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں پر لگائے گئے الزامات کا تفصیلی جائزہ لیا اور قرار دیا کہ وائس چانسلر نے ملازمین کی تقرری کے لیے کوئی مجرمانہ فعل نہیں کیا جبکہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان کے خلاف ساری کارروائی ڈاکٹر محمد اشرف نے ناپاک عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ترتیب دی تھی کیونکہ ان کی اہلیت وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کیلئے کم تھی اور ڈاکٹر اقرار نے ان کی بطور وائس چانسلر جامعہ زرعیہ تعیناتی کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ بظاہر میرٹ پر ہونے کے باعث ڈاکٹر اقرار احمد کو وائس چانسلر کے عہدے کے لیے اپنے جائز حق کیلئے کاوش کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی اور ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوانے تحقیقاتی کمیٹی کے کنوینر ہونے کے ناطے ڈاکٹر محمد اشرف کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مکمل مدد فراہم کی اور درخواست گزاروں کے خلاف ریکارڈ کے برعکس نتائج درج کئے گئے۔

ان کے اس ناروا فعل کی وجہ سے درخواست گزار(ڈاکٹر اقراراحمد) نہ صرف نیب کے سامنے ذلیل و خوار ہوئے بلکہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں انہیں اپنے حریفوں کے نام نہاد الزامات پر مسلسل انکوائریوں وتحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم نیب نے بعد ازاں ڈاکٹر اقرار کے خلاف انکوائری بند کر دی جبکہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے درخواست گزاروں کو لگاتار دو تحقیقات میں کلین چٹ دی گئی تھی اور کینسلیشن رپورٹ تیار کی گئی تھی جسے پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے مناسب طریقے سے آگے بڑھایا تھا، جس کا مطلب ہے کہ درخواست گزاروں کے خلاف الزامات میں کوئی حقیقت نہیں تھی لیکن بدقسمتی سے ٹرائل کورٹ گزشتہ گیارہ ماہ سے زائد عرصے سے اس پر بیٹھی ہوئی ہے۔

درخواست گزاروں کو محض کینسلیشن رپورٹ کے زیر التوا ہونے کی بنیاد پر ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھاگنے کے لیے شٹل کاک نہیں بنایا جا سکتا اور منسوخی کی رپورٹ کی پیروی کے لیے انہیں دوبارہ ٹرائل کورٹ میں بھیجنا جواب دہندگان نمبر 5 اور 6 (ڈاکٹر محمد اشرف اور ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا) کی طرف سے ان کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کرکے ہراساں کرنے کے تسلسل کے مترادف ہوگا۔لہٰذا عدالت عالیہ لاہور نے مندرجہ بالا حالات و واقعات کے پیش نظر رٹ پٹیشن کو الاؤکرتے ہوئے ایف آئی آر نمبر 41/2020 جو تعزیرات پاکستان کی دفعات 409,468,471 اور 420 اور انسداد بدعنوانی ایکٹ، 1947 کے سیکشن 5(2) کے تحت تھانہ اینٹی کرپشن میں درج کی گئی تھی کو منسوخ کردیا۔