ایران عراق زیارت پر جانے والے پاکستانیوں کے بھیک مانگنے میں ملوث ہونے کا انکشاف

عراقی حکام نے حکومت کو پاکستانی بھکاریوں اور ایف آئی اے حکام کے خلاف ناراضگی سے بھرا خط لکھ دیا

Sajid Ali ساجد علی ہفتہ 24 اگست 2024 16:00

ایران عراق زیارت پر جانے والے پاکستانیوں کے بھیک مانگنے میں ملوث ہونے ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 اگست 2024ء ) ایران اور عراق زیارت کے لیے جانے والے پاکستانیوں کے بھی بھیک مانگنے میں ملوث ہونے کا انکشاف ہو گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عراقی حکام نے حکومت کو پاکستانی بھکاریوں اور ایف آئی اے حکام کے خلاف ناراضگی سے بھرا خط لکھا، جس میں بتایا گیا ہے کہ ایف آئی اے اسٹاف عراق جانے والے پاکستانی بھکاریوں کا سہولت کار بنا ہوا ہے، ایف آئی اے حکام ایرانی ڈرائیورز کو رشوت دینے میں بھی ملوث ہیں، حکومت پاکستان زائرین اور ٹور آپریٹرز سے گارنٹی لے کہ وہ زیارت کے بعد واپس جائیں گے۔

عراقی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی بذریعہ ایران سڑک عراق میں منشیات، انسانی سمگلنگ اور بھیک مانگنے میں ملوث ہیں، 18 سے 25 سال کی پاکستانی لڑکیاں عراق میں بھیک مانگتی ہیں، غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کی تعداد 60 ہزار کے لگ بھگ ہے، پاکستانی شہریوں کے بلیک لسٹ ہونے کے بھی امکانات ہیں۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے ایف آئی اے نے کہا ہے کہ خاندان کے سربراہ خواتین اور بچوں کو عراق میں چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں، ایسے پاکستانی شہریوں کی تعداد حافظ آباد، وزیر آباد، منڈی بہاؤ الدین، گوجرانوالہ اور گجرات سے تعلق رکھتی ہے، 66 خواتین اور ان کے بچوں کو حراست میں لیا گیا ہے جو بغداد میں بھیک مانگنے میں ملوث پائے گئے۔

ادھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانی کا اجلاس سینیٹر ذیشان خانزادہ کی زیرِ صدارت ہوا، وزارت اوورسیز پاکستانیز کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات کے 50 فیصد جرائم میں پاکستانی شہری ملوث رہے ہیں، لوگ پاکستانی شہریوں کے رویوں سے پریشان ہیں کیوں کہ پاکستانی شہری باہر ممالک میں لوگوں کے کپڑوں تک پر ٹک ٹاک بناتے ہیں۔

وزارتِ اوورسیز کا کہنا ہے کہ دبئی میں خواتین بیٹھی ہوتی ہیں اور پاکستانی ان کے سامنے ویڈیوز بنانا شروع کردیتے ہیں، دبئی میں پاکستانی وی لاگرز لوگوں سے غزہ سے متعلق سوال شروع کردیتے ہیں، یہ ممالک ہمارے شہریوں کے ایسے رویوں اور اخلاقیات سے مایوس ہو رہے ہیں، یو اے ای نے دبے الفاظ میں یہ کہا ہے کہ بھیجنے والے لوگوں کے رویے بہتر بنانے کی تربیت نہ کی تو مسائل پیدا ہوں گے، سعودی عرب نے کہا ہے بھکاری نہ بھیجیں۔

حکام نے بتایا کہ ہمارے 96 فیصد افراد جی سی سی ممالک میں جارہے ہیں، 6 سے 8 لاکھ لوگ ملک سے باہر جاتے ہیں، دو تین لاکھ لوگ واپس بھی آجاتے ہیں، دبئی کے ساتھ مسائل ہیں، وہ کہہ رہے ہیں آپ سے 16 لاکھ کا زبانی کوٹہ تھا لیکن آپ 18 لاکھ پر آگئے، ایک نرس کی تنخواہ 6 مزدوروں سے زیادہ ہے، کویت والے کہتے ہیں آپ کی نرس کو ہماری زبان نہیں سیکھتی ، ان کو اگر کہہ دو مریض کو اٹھا کر بٹھادیں تو کہتی ہیں یہ کام وارڈ بوائے کا ہے، پاکستانی شہریوں کے رویوں کے باعث یہ ملک دوسرے ممالک کے ورکرز کو ترجیح دیتے ہیں۔

وزارت سمندر پار پاکستانی حکام نے کہا کہ ہالینڈ، فرانس، امریکہ میں اینٹی امیگریشن جذبات ہیں، ملیشیا میں لوگ ایک سال کے معاہدے پر گئے اور وہیں رک گئے پھر جیل میں جاتے ہیں، عراق میں لوگ غائب ہوئے ان کی درست تعداد معلوم نہیں، ہم 6 سے 8 لاکھ لوگ بارڈر کے ذریعے باقاعدہ بھیج رہے ہیں، پھر بھی کشتیوں میں کون لوگ پکڑے جا رہے ہیں، یہ پاکستان کا تشخص خراب کر رہے ہیں، باہر والے ہم سے تنگ ہیں۔

حکام نے کہا کہ یورپی یونین کہتا ہے آپ ایف آئی اے کا نظام، بارڈر کنٹرول بہتر کریں ہم آپ کو ملازمت میں چھوٹا کوٹا دیں گے، کل یورپی یونین کی ٹیم آرہی ہے، نئے پروفیشن اور ممالک کا اصل ڈیٹا چاہیے کہ وہاں کون سی نوکریاں دستیاب ہیں، یہ ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں لیکن اگر ہم بارڈر اور انسانی اسمگلنگ کو کنٹرول نہیں کریں گے تو ہم پھنس جائیں گے، امیگریشن سے متعلق تمام معاملات دیکھنے کے لیے وزیراعظم کے ماتحت ایک کابینہ کمیٹی بنی ہے۔