اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 ستمبر2024ء)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں چیئرمین
پی ٹی اے نے وی پی اینز کو رجسٹرڈ کرنے اور غیررجسٹرڈ وی پی این بلاک کرنے کا اعلان کردیا
۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نے ایل ڈی آئی لائسنسوں کی تجدید کا مسئلہ 3 ماہ میں حل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وزارت آئی ٹی کو کہاہے کہ وہ اس مسئلہ پر ماہانہ کمیٹی کو عمل درآمد رپورٹ دے اگر تین ماہ میں مسئلہ حل نہ ہوا تو کمیٹی دوبارہ اس معاملے کو دیکھے گی جبکہ کمیٹی نے سیکرٹری آئی ٹی کی تعیناتی کے عمل پر عدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے تمام امیدواروِ کے دستاویزات طلب کرلیں، کمیٹی کو ایکس پر پابندی کے حوالے سے
وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ یہ معاملے تین عدالتوں میں زیرسماعت ہے چیئرمین
پی ٹی اے نے بتایا کہ وی پی این کو رجسٹرڈ کررہے ہیں جس کے بعد تمام غیررجسٹرڈ وی پی این بلاک کردیں گے۔
(جاری ہے)
پیر کو
سینیٹ قائمہ کمیٹی آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس چیئرپرسن پلوشہ خان کی زیرِ صدارت
پارلیمنٹ لاجز میں ہوا۔چیئرمین
پی ٹی اے کی ایل ڈی آئی لائسنس کی تجدید سے متعلق قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی گئی ۔چیئرمین
پی ٹی اے نے بتایا کہ 5 ایل ڈی آئی کمپنیاں فیسز ادا کرنے کو تیار ہیں، کچھ نے
عدالت میں کیس کر رکھے ہیں،ایل ڈی آئی کمپنیوں کے لائسنس جولائی، اگست میں ختم ہورہے تھے، ایل ڈی آئی کمپنیوں کے
عدالت میں بھی کیسز چل رہے ہیں، ہم چاہتے تھے کہ فیس کی قسطوں میں ادائیگی ہونی چاہیے، سابق سیکرٹری آء ٹی نے پالیسی ڈائریکٹو ایشو کیا، جو کہ ان کا استحقاق نہیں تھا، کابینہ میں بھی یہ معاملہ زیرِ بحث آیا تھا۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے کہاکہ کیا 15 ایل ڈی آئی کمپنیوں کے اپٹیکل فائبر کیبل ہے ہی نہیں چار ایل ڈی آئی کمپنیاں بہت متحرک ہے۔ چیئرمین
پی ٹی اے نے کہاکہ اس وقت
عدالت میں لگ بھگ 15 کیسز چل رہے ہیں، لائسنس کی ری نیول نہ کرنے کی وجہ سے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ چیئرمین
پی ٹی اے نے کہاکہ 4کمپنیوں کے لائسنس کی تجدید کا مسئلہ زیادہ ہے ان میں وطین ہے جس کی 24 شہروں میں فائبر آپٹک بچھی ہوئی ہے زیادہ علاقہ
بلوچستان اور
سندھ میں ہے 44بینک اور
نادرا بھی اس کے ساتھ منسلک ہیں۔
لائسنسوں کی تجدید کے حوالے سے کمیٹی بنائی گئی مگر کمیٹی مسائل حل کرنے سے قاثر تھی۔جولائی 2024 میں وطین کا لائسنس ایکسائر ہو گیا ہے مگر انہوں نے
عدالت سے سٹے لے لیا ہے۔ انوشہ رحمان نے کہاکہ اس مسئلہ کو حل کیا جائے۔اگر ان کمپنیوں کو لائسنس چاہیے اگر انہوں نے کام کرنا ہے ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ بلیک میل کریں۔ہمایوں مہمند نے کہاکہ یہ مسائل ہم نے شروع میں کیوں حل نہیں کئے اگر شروع میں حل کئے ہوتے تو آج بلیک میل نہ ہوتے۔
چیئرمین
پی ٹی اے نے کہاکہ 2020میں ایک
کمپنی کو قسطوں پر پیسے جمع کرنے کی نظیر موجود ہے۔انوشہ رحمان نے کہاکہ 2020میں قسطوں پر پیسے لینے کا حکم بھی غیر قانونی ہے۔وزارت آئی ٹی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 12جولائی کو اس معاملہ پر بات ہوئی ہے تحریری کچھ نہیں تھا اس وقت کے سیکرٹری نے تحریری احکامات دیئے تھے۔وفاقی سیکرٹری آئی ٹی نے کہاکہ حکومت کی طرف سے واضح احکامات آنے چاہیے۔
کیوں کہ لائسنس ایکسپائر ہوچکے ہیں۔ہمیں سب سے پہلے عدالتی سٹے آڈر ختم کرنا ہوگا۔ایل ڈی آئی لائسنسوں کی تجدید کے حوالے سے ایجنڈا اگلے اجلاس تک موخر کردیا گیا کمیٹی 3 ماہ کے بعد اس معاملے پر دوبارہ بحث کرے گی۔گذشتہ دس سالوں میں ٹیلی کام آپریٹرز کی آمدن کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ایکس پر بندش کے حوالے سے ایجنڈے پر چیئرمین
پی ٹی اے نے بتایا کہ
پی ٹی اے کو روزانہ 150شکایات
سوشل میڈیا کے حوالے سے آتی ہیں۔
وزارت داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ایکس پر پابندی کا کیس تین عدالتوں میں زیر
سماعت ہے۔چیئرمین
پی ٹی اے نے بتایا کہ دنیامیں وی پی این رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ 20500وی پی این رجسٹرڈ ہوگئے ہیں۔ جب مکمل وی پی این رجسٹرڈ ہوجائیں گے تو جو رجسٹرڈ نہیں ہوں گے ان کو بند کردیں گے۔انوشہ رحمان نے کہاکہ جب ایکس کو بند کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں ہورہاہے اگر ہماری استعداد
کار نہیں ہے تو ہمیں استعداد
کار حاصل کرنی چاہیے ایکس پر پابندی کا حکم آیا اس کا عمل نہیں ہورہاہے جس سے ہمارا دنیامیں مذاق اڑایا جارہاہے،قانون کے نفاذ میں شرمندگی نہیں ہونی چاہیے۔
دبئی کے حکام سے میری ملاقات ہوئی ہے وہ بھی مختلف سوشل میڈیاکو بلاک کررہے ہیں ان سے بھی رہنمائی لی جائے۔چیئرمین
پی ٹی اے نے کہاکہ اس حوالے سے ہم کام کررہے ہیں۔سینیٹر انوشہ رحمان نے کہاکہ یو ایس ایف کے بورڈ سے وزیر مملکتِ آئی ٹی کو کیوں نکالا گیا ہے اس کی وجہ کیا ہی وزارت آئی ٹی کے لیگل ونگ نے بتایا کہ مجھے نہیں پتہ اگلے اجلاس میں بتادیں گے۔
ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کمیٹی کو پرائیوٹ سیکٹر سے سیکرٹری آئی ٹی تعینات کرنے پر کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔سیکرٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کی تعیناتی کے معاملہ پر چیئرپرسن پلوشہ خان نے کہاکہ کیا بیوروکریسی میں کوء بھی اس پوسٹ کے قابل نہیں تھا اسپیشل سیکرٹری سٹبیلشمنٹ ڈویژن سارہ سعید نے کہاکہ اس شعبے کا کوئی پروفیشنل نہیں تھا۔
ہمایوں مہمند نے کہاکہ پھر ہر وزارت میں سیکرٹری کو ہٹا کے پروفیشنل تعینات کیا جائے ، اسپیشل سیکرٹری سٹبیلشمنٹ ڈویژن نے کہاکہ اس پوسٹ کے لیے 84 درخواستیں موصول ہوئیں، پھر اٴْن میں سے سکروٹنی ہوء ، پھر انٹرویوز کیے گئے اٴْس کے تجربے کی بنیاد پر تعیناتی ہوء ،جوائنٹ سیکرٹریز نے اسکروٹنی کی۔ چیئرپرسن نے کہاکہ اسکروٹنی میں کوئی پروفیشنل موجود نہیں تھا ، تو کیسے چٴْناؤ کیا گیا حکام نے بتایا کہ یہ سیکرٹری اس سے پہلے پی ٹی ایل میں گروپ چیف فنانس کی پوسٹ پر تعینات تھے۔
سول سرونٹ ایکٹ میں ترقی کے پیرا میں لکھا گیا کہ بی ایس 21 سے 22 میں ترقی ہوگی ،15 ایسے امیدوار تھے جو بتائے گئے طریقہ
کار پر پورا اترتے تھے ،کمیٹی نے ان تمام 15 درخواست گزاروں کو کمیٹی نے انٹرویو کے لئے بلایا۔ قائمہ کمیٹی نے سیکرٹری آئی ٹی کے لئے 77 امیدواروں کی تفصیلات طلب کرلیں۔اسپیشل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کہاکہ سیکرٹری آئی ٹی کی تقرری ایس پی پی ایس کے ذریعے کی گئی ہے، 18 لاکھ روپے پر نئے سیکرٹری آئی ٹی کی تقرری کی گئی ہے، ڈگری اور تجربہ جسکا نہیں تھا انہیں پراسس سے نکالتے گئے، ہمایوں مہمند نے کہاکہ 77 امیدواروں کی تفصیلات لیکر آئیں انکا تجربہ اور کوالیفیکیشن کتنی تھی، سینیٹر انوشہ رحمان نے نئے سیکرٹری آئی ٹی کی تعیناتی کے معاملے پر کہاکہ آپ بلا سود یہ کام کررہے ہیں ایک سیکرٹری آگئے انہیں کام کرنے دیں، پلوشہ خان نے کہاکہ ہم سیکرٹری کو کام کرنے سے نہیں روک رہے ہمیں شفافیت کا علم ہونا چاہے، ہمایوں مہمند نے کہاکہ یہ ایک فرد کے لئے نہیں بات ہورہی یہ ہم کرائیٹیریہ کے لئے کررہے ہیں،حکام نے کہاکہ جو ٹی او آرز وزیر اعظم نے طے کئے اسی کے مطابق تقرری ہوئی، کمیٹی نے سیکرٹری آئی ٹی کے لیے درخواستیں دینے والے تمام امیدواروں کی لسٹ مانگ لی۔