تارک وطن افریقی النسل افراد کے خلاف امتیازی سلوک کا خاتمہ ضروری

یو این ہفتہ 9 نومبر 2024 03:30

تارک وطن افریقی النسل افراد کے خلاف امتیازی سلوک کا خاتمہ ضروری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 نومبر 2024ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فائلیمن یانگ نے کہا ہے کہ گزشتہ دہائی میں سیاہ فام لوگوں کے انسانی حقوق کو تحفظ اور فروغ دینے میں پیش رفت کے باوجود دنیا بھر میں نسل پرستی اور امتیاز بدستور برقرار ہے۔

اس عرصہ میں افریقی النسل لوگوں کے حقوق کے لیے نمایاں کام ہونے کے باوجود ان کے لیے مسائل ختم نہیں ہوئے جن کا تعلق غلامی اور نوآبادیاتی دور کی میراث سے ہے۔

ان لوگوں کو اپنے مکمل شہری، سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق سے کام لینے کا موقع دینے کے لیے اس میراث کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

Tweet URL

انہوں ںے یہ بات افریقی النسل لوگوں کی بین الاقوامی دہائی کے اختتام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

یہ دہائی منانے کا مقصد انسانی تہذیب کی ترقی میں ان لوگوں کے کردار کا اعتراف کرنا اور انہیں درپیش نسلی ناانصافی کو سامنے لانا ہے جس کا انہوں نے صدیوں تک سامنا کیا ہے۔

افریقی النسل لوگوں کی دہائی: نمایاں کامیابیاں

افریقی النسل لوگوں کی دہائی منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کیا تھا۔ اس عرصہ میں ان لوگوں کے خلاف نسلی پرستی، نسلی بنیاد پر امتیاز، اجنبیوں سے نفرت اور متعلقہ عدم رواداری کا مقابلہ کرتے ہوئے ہر شعبہ زندگی میں ان کی مساوی شمولیت یقینی بنانے کے لیے کئی طرح کے پروگرام اور سرگرمیاں ہوئیں۔

اس حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت میں افریقی النسل لوگوں کے مستقل فورم کا قیام خاص طور پر نمایاں ہے جو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو رپورٹ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں 25 جولائی کو افریقی النسل خواتین اور لڑکیوں کا عالمی دن منانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔متعدد ممالک نے افریقی النسل لوگوں کو درپیش مخصوص مسائل پر قابو پانے کے لیے قانون اور پالیسی کے حوالے سے متعدد اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔

جنرل اسمبلی کے صدر نے کہا کہ ان کامیابیوں کا سلسلہ آگے بڑھانے کے لیے افریقی النسل لوگوں کے لیے ایک اور دہائی بھی منائی جانی چاہیے۔

نئے قوانین اور پالیسیوں کی ضرورت

اقوام متحدہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے انسانی حقوق الزے برینڈز کیرس نے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی جانب سے خطاب کرتےہوئے کہا کہ اس اجلاس میں دنیا کو نسل پرستی سے پاک کرنے کے لیے عملی اقدامات، بڑے پیمانے پر تعاون کو فروغ دینے اور مضبوط عزم پیدا کرنے کی بات ہوئی۔

سبھی کو اس دہائی کے اسباق اور تجربات سے سیکھنا اور اس دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کا سلسلہ آگے بڑھانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ افریقی النسل لوگوں کے لیے نئے قوانین اور پالیسیاں بنانے اور معاشروں کی تعمیر و ترقی میں ان کی خدمات کے بھرپور اعتراف کی ضرورت ہے۔

© Unsplash/Moises Alex
برازیل میں افریقی النسل لوگوں کی ثقافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

سیاہ فام لوگوں کے تقطیعی مسائل

شہری حقوق کی امریکی کارکن اور قانون کی پروفیسر کمبرلے کرینشا نے 30 برس قبل کئی طرح کی عدم مساوات کے باہمی تعامل اور ایک دوسرے کو تقویت دینے کے حوالے سے تقطیعت (Intersectionality) کی اصطلاح وضع کی تھی۔ اس اجلاس میں انہوں نے ہر شعبہ زندگی میں افریقی النسل لوگوں کی مکمل اور مساوی شرکت کو فروغ دینے میں اس سے لاحق مسائل پر روشنی ڈالی۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں افریقی النسل لوگوں کو درپیش حالات سیاہ فام مخالفت کی تقطیعی صورت کی عکاسی کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر زچگی کی اموات اور آمدنی کی سطح اور قوامی و علاقائی سرحدوں کے تناظر میں زچگی کی صحت کے حوالے سے پایا جانے والا تفاوت اس کی نمایاں مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم تک رسائی، سیاسی طاقت اور ثقافتی پہچان جیسے معاملات کو بھی اسی تقطیعی تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

© Unsplash/Colin Lloyd
امریکی شہر کولاریڈو میں نفرت انگیزی کے خلاف ایک مظاہرہ۔

مشترکہ انسانیت کی توثیق

کمبرلے کرینشا نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ سیاہ فام افراد کو مساوی مواقع دینے کی کوششیں ترک کرنے کے مطالبات کی مخالفت کرے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے آنجہانی نیلسن منڈیلا کا حوالہ دیا جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے خلاف عالمگیر جدوجہد کوئی سخاوتی اقدام نہیں بلکہ یہ ہماری مشترکہ انسانیت کی توثیق اور اظہار ہے۔

انہوں نے کہا کہ افریقی النسل لوگوں کی دوسری دہائی کو اپنی مشترکہ انسانیت اور اس بات کی یاد دہانی بنانا ہو گا کہ جب تک تمام لوگ آزاد نہیں ہو جاتے اس وقت تک کوئی بھی مکمل آزاد ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔