بینچز اختیارات کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے، جسٹس منصور

بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے؟ کیس ریگولر بینچ سن رہا تھا، کیا کمیٹی اسے شفٹ کرسکتی ہے؟ دوران سماعت سوالات و ریمارکس

Sajid Ali ساجد علی بدھ 22 جنوری 2025 11:19

بینچز اختیارات کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 جنوری 2025ء ) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا ہے کہ بینچز کے اختیار سے متعلق کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیار سے متعلق کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی جہاں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذرعباس عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو تحریری جواب دینے کی ہدایت کردی۔

دوران سماعت عدالت نے قرار دیا کہ ’سوال پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کا ہے، بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے؟ نذر عباس کے دفاع میں کمیٹی کے فیصلے پیش کیے گئے تھے‘، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’نذر عباس کا تحریری جواب آنے تک رجسٹرار کا مؤقف ان کا دفاع قرار نہیں دیا جا سکتا، اس کے علاوہ جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے وہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست گزاروں کے وکلا ہیں‘۔

(جاری ہے)

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ’کیس ریگولر بینچ سن رہا تھا، کیا کمیٹی اسے شفٹ کرسکتی ہے؟ یہ کیس آرٹیکل 191 اے کا ہے کچھ کیسز ٹیکس سے متعلق بھی تھے، رجسٹرار نے ایڈیشنل رجسٹرار کے دفاع میں کہا کہ یہ سب 2 ججز کمیٹی کے فیصلے سے ہوا، ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کہاں ہیں آج آئے ہوئے ہیں؟‘۔ اس کے ساتھ ہی ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عدالت کے سامنے پیش ہوگئے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ان سے استفسار کیا کہ ’آپ نے کیس کو کاز لسٹ سے کیوں ہٹایا؟ آپ کوشش کریں آج اپنا تحریری جواب جمع کروا دیں، اس کیس کا تعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اختیارات سے ہے ناکہ 26 ویں ترمیم سے اور کوئی عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے‘۔