اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کا فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور وزارت منصوبہ بندی کے اشتراک سے ورکشاپ کا انعقاد

پیر 3 فروری 2025 20:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 فروری2025ء) اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے وزارت منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کے اشتراک سے پاکستان میں فوڈ کنٹرول سسٹم اسیسمنٹ پر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ یہ ورکشاپ پیر کو یہاں مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں حکومتی اداروں، بین الاقوامی تنظیموں، نجی شعبے، مختلف وزارتوں اور فوڈ انڈسٹری کے نمائندگان نے شرکت کی۔

ورکشاپ کا مقصد پاکستان میں خوراک کے تحفظ اور معیار سے متعلقہ چیلنجز اور مواقع پر تبادلہ خیال تھا۔ورکشاپ کا آغاز ایف اے او پاکستان کی نمائندہ فلورینس رولے کے خیر مقدمی کلمات سے ہوا۔ انہوں نے خوراک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے مضبوط حکمت عملیوں کی ضرورت پر زور دیا جو نہ صرف عوامی صحت بلکہ معیشت، تجارت اور خوراک کے تحفظ کو بھی فروغ دیں گی۔

(جاری ہے)

انہوں نے فوڈ سیفٹی اسیسمنٹ کے چار کلیدی بین الاقوامی اصولوں پیداوار سے کھپت تک فوڈ سیفٹی – خوراک کی حفاظت کو پورے سپلائی چین میں یقینی بنانا، واضح ذمہ داریوں اور کرداروں کی تقسیم – فوڈ سپلائی چین میں تمام فریقین کے کردار کو واضح کرنا، سائنس پر مبنی خطرات کا تجزیہ – پالیسی سازی میں تحقیق و تجزیے کی بنیاد پر فیصلے لینا اورسپلائی چین میں شفافیت – قوانین اور ریگولیٹری فریم ورک پر بھی روشنی ڈالی تاکہ پالیسی کو مزید مؤثر بناتے ہوئے عالمی معیارات پر پورا اترا جا سکے۔

ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے فوڈ سیفٹی اور ریگولیشن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خوراک کی سلامتی صرف صحت کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے بھی ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان غذائی قلت اور خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے سنگین مسائل کا سامنا کر رہا ہے جو خاص طور پر بچوں اور عوام کی مجموعی صحت پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ اُڑان پاکستان کے تحت برآمدات پاکستان کی معاشی ترقی کی بنیاد ہوں گی اور پاکستان اپنی زراعت کی صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے خوراک اور زرعی مصنوعات کی برآمدات میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر پاکستان کو عالمی سطح پر زرعی مصنوعات کی برآمدات بڑھانی ہیں تو عالمی فوڈ سیفٹی سرٹیفکیشن، قواعد و ضوابط اور معیارات کو سمجھنا اور ان پر مکمل عمل درآمد کرنا ناگزیر ہو گا۔

انہوں نے حکومت، متعلقہ اداروں اور نجی شعبے کے اشتراک سے فوڈ سیفٹی ریگولیشنز میں موجودہ خامیوں کو دور کرنے، مؤثر حکمت عملی مرتب کرنے، اور ان کا نفاذ یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ پاکستان کا فوڈ سیفٹی سسٹم بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہو سکے۔ورکشاپ میں ایف اے او ہیڈکوارٹرز، روم سے سینئر فوڈ سیفٹی آفیسر کیتھرین بیسی نے پاکستان کے فوڈ سیفٹی ریگولیٹری فریم ورک پر ایک جامع پریزنٹیشن پیش کی۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک فرد خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے جو عالمی اوسط سے دوگنا زیادہ ہے اور اس کے باعث سالانہ تقریباً 1.7 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوتا ہے۔مزید برآں نادیہ رحمان ممبر (فوڈ سیکیورٹی اینڈ کلائمیٹ چینج)، پلاننگ کمیشن نے پاکستان کو درپیش اہم فوڈ سیفٹی چیلنجز اور ان کے حل پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے قومی اور صوبائی سطح پر مزید مؤثر تعاون اور پالیسی شراکت داری کی ضرورت پر زور دیا تاکہ فوڈ سیفٹی سسٹم کو مزید مستحکم بنایا جا سکے۔ میجر جنرل ایوب احسن، ڈائریکٹر جنرل لمز نے کہا کہ عالمی سطح پر پاکستان کی زرعی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے اعتماد اور شفافیت انتہائی اہم عوامل ہیں۔ انہوں نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کے اعلیٰ معیار کے زرعی پیداوار، جیسے آم، چاول اور ترشاوہ پھل، عالمی منڈیوں میں زیادہ مقام حاصل کر سکتے ہیں اگر فوڈ سیفٹی کے سخت معیارات کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے۔

ورکشاپ کے اختتام پر تمام شرکاء نے فوڈ سیفٹی کے قوانین کو مزید مضبوط بنانے، عالمی معیار پر عملدرآمد کو یقینی بنانے، برآمدی مواقع بڑھانے اور صارفین کے تحفظ کو اولین ترجیح دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ ورکشاپ پاکستان میں ایک محفوظ اور مضبوط فوڈ ریگولیٹری نظام کے لئے ایک سٹریٹجک روڈ میپ کی بنیاد ثابت ہو گی جو نہ صرف خوراک کی حفاظت اور عوامی صحت کو یقینی بنائے گی بلکہ بین الاقوامی تجارتی تقاضوں کو بھی پورا کرے گی۔