اکادمی ادبیات پاکستان میں ’پاکستان میں زبانوں کا تنوع: حیثیت، حقوق اور شناختی قبولیت‘ کے موضوع پر کانفرنس کا انعقاد

منگل 25 فروری 2025 20:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 فروری2025ء) اکادمی ادبیات پاکستان میں’پاکستان میں زبانوں کا تنوع: حیثیت، حقوق اور شناختی قبولیت‘کے موضوع پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا انعقاد مشترکہ طور پر سندھی لینگویج اتھارٹی اور اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے کیا گیا تھا ۔ کانفرنس کا مقصد پاکستان میں لسانی تنوع کے فروغ اور تمام زبانوں کی یکساں حیثیت کی قبولیت کے لئے بات چیت اور مذاکرات کو آگے بڑھانا تھا۔

سابق چیئرمین سینیٹ اور سینئر سیاستدان رضا ربانی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں زبانوں کی تحریک پر روشنی ڈالی اور یونیسکو کے مادری زبانوں کے عالمی دن کا حوالہ دیتے ہوئے بنگلہ دیش کی تحریک کا خاص حوالہ دیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اردو اور انگریزی کو سرکاری زبان برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کی تمام مادری زبانوں کو قومی زبانوں کادرجہ دیا جائے ۔

(جاری ہے)

رضا ربانی نے تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ لسانی حقوق کو اپنا نصب العین بنا لیں اور اس پر سنجیدگی سے کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں کو آئین کے آرٹیکل 251 بی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے صوبوں کی زبانوں کو صوبے کی سرکاری زبانیں قرار دے کر ان کے فروغ کے لئے کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 253 ۔بی میں ترمیم کرکے تمام صوبوں کی زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینا چاہئے اور ریاستی اور سرکاری وسائل صوبوں کی زبانوں اور ثقافتی شناختوں کے فروغ کے لئے مختص کرنے چاہئیں۔

معروف دانشور جامی چانڈیو نے اپنے خطاب میں لسانی تنوع کے موضوع پر تاریخی اور عالمی حوالہ جات پیش کئے۔ کانفرنس کے میزبان سندھی لینگویج اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر اسحاق سمیجو نے ریاست کی ایک زبان والی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے غیر ضروری نفاق کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی بیانیے کے برعکس پاکستان کی مختلف لسانی اور ثقافتی اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ پرامن بھائی چارے کے ساتھ رہ رہی ہیں۔

انہوں نے تمام زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اردو یا انگریزی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔انڈس کلچرل فورم کے سابق چیئرپرسن اور سرگرم رکن منور حسن نے مذاکرے کا آغاز کرتے ہوئے گزشتہ دس سال سے ہونے والے پاکستان کی مادری زبانوں کے ادبی میلے کے تجربات پر روشنی ڈالی۔ معروف دانشور اور مصنف انعام شیخ نے کہا کہ پاکستان کی تمام زبانوں میں وسیع ورثہ اور قومی ذخیرہ موجود ہے اور انہیں قومی سطح پر شناخت فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ نو آبادیاتی نظام نے مصنوعی شناختوں کو جنم دیا ہے جو آزادی کے بعد بھی برقرار رہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحیح معنوں میں قومی ہم آہنگی کے فروغ کے لئے ہمیں ان پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ بلوچی زبان کے مصنف ڈاکٹر واحد بخش بزدار نے سکولوں میں مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ مقامی زبانوں کا تحفظ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب انہیں سکول میں بطور نصابی زبان کے طور پر پڑھایا جائے گا۔

پشتو زبان کی نمائندگی کرتے ہوئے احمد خلیل نے کہا کہ پاکستان کے لسانی تنوع کی جڑیں اس کے صوفی ورثے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زبانوں کے تحفظ کے لئے انہیں معاشیات کی زبان بنانا ضروری ہے، اس سے ہی پائیدار ترقی ممکن ہو سکے گی۔ سرائیکی زبان کی نمائندگی کرتے ہوئے معروف دانشور اور صحافی مظہر عارف نے کہا کہ مختلف زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا مطالبہ عوامی سطح پر کیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندوں کو زبانوں کی حیثیت کو پہچانتے ہوئے ایوانوں میں اس موضوع پر آواز اٹھانی چاہئے۔ کانفرنس کے اختتام پر مطالبات پیش کئے گئے جن میں پاکستان کی تمام مادری زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے، پرائمری کی سطح پر تمام تعلیم مادری زبانوں میں فراہم کی جائے، صوبہ سندھ کو مثال بناتے ہوئے تمام صوبوں کو اپنی اپنی زبانوں کو سرکاری زبانوں کا درجہ دینا چاہئے، ریاستی سطح پر لسانیات کے ادارے بنا کر تمام زبانوں کے فروغ کے لئے ریاستی وسائل مختص کئے جائیں، شامل تھے۔