ٹرائل یہاں ہو یا وہاں کیا فرق پڑتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے فوجی عدالتوں کے کیس میں ریمارکس

ٹرائل میں زمین آسمان کا فرق ہے ایک ٹرائل آزاد ہے دوسرا ملٹری میں ہے؛ سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کا جواب

Sajid Ali ساجد علی منگل 4 مارچ 2025 11:32

ٹرائل یہاں ہو یا وہاں کیا فرق پڑتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے فوجی عدالتوں ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 مارچ 2025ء ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندو خیل کہتے ہیں کہ جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہیئے، ٹرائل یہاں ہو یا وہاں کیا فرق پڑتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت جاری ہے جہاں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کر رہا ہے، آج کی سماعت میں سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیئے۔

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ ’ملٹری کورٹ سے کتنے لوگ رہا ہوئے؟‘ جس پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ ’105 کل ملزمان تھے جس میں سے 20 ملزمان رہا ہوئے‘، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’20 پہلے ہوئے تھے پھر 19 رہا ہوئے اس وقت جیلوں میں 66 ملزمان ہیں‘۔

(جاری ہے)

اپنے دلائل میں فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ ’امریکہ میں رواج ہے کہ دلائل کے اختتام پر دونوں پارٹیز کو پروپوز ججمنٹ کا حق دیا جاتا ہے، اگر یہ کہتے ہیں کہ کورٹ مارشل کرنا ہے اس کا بھی متبادل ہے‘، اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ’جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہیئے، ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ہو کیا فرق پڑتا ہے؟‘۔

اس کے جواب میں فیصل صدیقی نے کہا کہ ’ٹرائل میں زمین آسمان کا فرق ہے ایک ٹرائل آزاد ہے دوسرا ملٹری میں ہے جہاں دفاع پاکستان کو خطرہ ہو وہاں سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے لیکن 9 مئی واقعات میں تو کیسز توڑ پھوڑ کے ہیں‘، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’سارے فورم موجود ہیں اور قابل احترام ہیں‘، اس موقع پر وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ ’8 تھری اے میں ایف بی علی نے کہا تھا آپ قانون کو چیلینج نہیں کرسکتے‘۔