تعلیم کا مقصد مساوات اور آزادی، امدادی کارکن بننے والی افغان لڑکی کی کہانی

یو این جمعہ 14 مارچ 2025 00:45

تعلیم کا مقصد مساوات اور آزادی، امدادی کارکن بننے والی افغان لڑکی کی ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 مارچ 2025ء) ماشا٭ کہتی ہیں کہ ان کے لیے تعلیم کا مطلب مساوات اور آزادی ہے۔ اس کے بغیر انہیں اور ان کی دوستوں کو اپنا اچھا مستقبل دکھائی نہیں دیتا۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والی ماشا اپنی عمر کی دوسری دہائی کے ابتدائی برسوں میں ہیں اور بہت سی مشکلات کے باوجود انہوں نے گریجوایشن مکمل کرنے سے پہلے ہی ایک امدادی ادارے میں نوکری حاصل کر لی تھی۔

ان کے ملک میں ایسی مثال شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

ماشا نے ایسے وقت جنم لیا جب افغانستان میں خواتین کو امید اور مواقع دکھائی دیتے تھے، لیکن اب ان سے یہ سب کچھ چھن گیا ہے کیونکہ نہ تو وہ سماجی اجتماعات میں شرکت کر سکتی ہیں، نہ ان کے لیے موسیقی کے پروگرام ہیں اور سب سے بڑھ کر، وہ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے بھی محروم ہو گئی ہیں۔

(جاری ہے)

صوبہ ہرات میں پیدا ہونے والی ماشا کم عمری میں اپنے خاندان کے ساتھ دارالحکومت کابل چلی آئی تھیں۔ اس وقت انہیں اپنے بھائی بہنوں کا بہترین تحفظ حاصل تھا اور والدین ان کی اپنے خواب پانے کے لیے حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ تاہم، اگست 2021 میں ملک پر طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ماشا کو اپنے تعلیمی سفر میں بہت سی کڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

IOM/Robert Kovacs
تعلیم جاری رکھنے کے لیے افغان لڑکیاں روانڈا پہنچ رہی ہیں۔

طالبان اور تعلیمی مشکلات

طالبان کی حکومت آنے سے پہلے انہوں نے کاروبار کے مضمون میں گریجویشن کا آغاز کیا تھا لیکن مارچ 2022 میں حکومت نے چھٹے درجے سے آگے لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کر دی اور ان کی ثانوی درجے میں تعلیم ممنوع قرار پائی۔ دسمبر میں حکام نے خواتین کو یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے سے بھی روک دیا۔

اس موقع پر ماشا اپنی نصف تعلیم مکمل کر چکی تھیں۔ حکام کے ان فیصلوں سے ابتداً انہیں بے حد پریشانی لاحق ہوئی لیکن جلد ہی انہوں نے تعلیم جاری رکھنے کے طریقے کھوجنا شروع کر دیے۔

وہ کہتی ہیں ان کے والد نے انہیں بتایا کہ کیسے مثبت سوچ رکھتے ہوئے اپنے خوابوں کو پانا ہے اور والد ہی ان کے لیے باعث تحریک رہے ہیں۔

خوش قسمتی سے ماشا کو قطر میں قائم امریکن یونیورسٹی آف افغانستان سے آن لائن تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔

اس تعلیمی پروگرام کی بدولت ان کے علاوہ افغانستان کی دیگر خواتین کو بھی ملک میں عائد پابندیوں کے باوجود اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع ملا۔ اپنی جماعت میں سب سے زیادہ لائق طالبہ ہونے کے ناطے انہیں خصوصی سکالرشپ کے تحت امریکی ادارہ برائے عالمی ترقی (یو ایس ایڈ) کے مالی تعاون سے چلنے والے فاصلاتی تعلیم کے پروگرام میں بھی داخلہ مل گیا۔

ماشا کام کرنے کے ساتھ روزانہ آن لائن کلاسیں بھی لیتی ہیں اور اس کے لیے عموماً انہیں کام پر جانے سے پہلے علی الصبح اٹھنا پڑتا ہے۔ وہ کام کے دوران کھانے کے وقفے میں بھی آن لائن کلاس میں شریک ہوتی ہیں اور تعلیمی کام مکمل کرنے کے لیے رات گئے جاگتی رہتی ہیں۔ اکثر وہ تھک بھی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے عزم میں فرق نہیں آیا کیونکہ انہیں جو موقع ملا ہے وہ افغانستان میں بہت کم خواتین کو نصیب ہوتا ہے۔

UN Afghanistan
طالبان نے خواتین کے این جی اوز کے لیے کام کرنے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔

امدادی کاموں میں دلچسپی

جب وہ گیارہ سال کی عمر میں چھٹی جماعت میں زیرتعلیم تھیں تو انہوں نے پہلی مرتبہ امدادی کام کے بارے میں سنا۔ ان کی بعض ساتھی طالبات کتابیں اور سٹیشنری خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی تھیں اور انہیں یہ سامان امریکہ کے ایک ادارے کی جانب سے مہیا کیا جاتا تھا۔

جب ان کی استاد نے بتایا کہ یہ سامان کہاں سے آتا ہے اور بعض خاندانوں کے لیے یہ کس قدر اہمیت رکھتا ہے تو ماشا یہ سن کر بے حد متاثر ہوئیں اور انہوں نے اپنی تمام فاضل کتابیں ایسی طالبات کو دے دیں جو ان سے محروم تھیں۔

کئی سال کے بعد یونیورسٹی میں اپنے پہلے سمسٹر کے دوران انہوں نے انسانی حقوق سے متعلق کلاس لی اور اقوام متحدہ کے کام کا تفصیلاً مطالعہ کیا۔

ماشا اپنے کام سےلطف اندوز ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں امدادی کام کرنے پر فخر ہے لیکن ان کے دل میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ کاش وہ لوگوں کے لیے مزید بہت کچھ کر سکتیں۔

پابندیاں اور امید

انہیں بیشتر اوقات پس منظر میں رہ کر کام کرنے پر افسوس ہوتا ہے کیونکہ ملکی حکام نے خواتین کی نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

لیکن انہیں امید ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہیں امدادی شعبے میں مزید اعلیٰ عہدوں پر اور سامنے آ کر کام کرنے کا موقع بھی ملے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ آگے بڑھنا، اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں حقیقی طور سے لوگوں کے کام آنا اور ان کی زندگیوں کو مثبت طور سے تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے تعلیم اور کام کے حق تک رسائی بہت ضروری ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ناصرف خود انہیں بلکہ افغانستان کی تمام لڑکیوں اور خواتین کو بھی یہ مواقع ملیں۔

نوٹ: رواں سال جنوری میں امریکہ کی حکومت نے بیرون ملک دی جانے والی امداد روکنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اقدام سے 'یو ایس ایڈ' کا دنیا بھر میں کام بھی متاثر ہوا اور ماشا کی سکالرشپ اور فاصلاتی تعلیم کے پروگرام بھی اس پابندی کی زد میں آئے۔ راتوں رات ان کا پروگرام اور آن لائن کلاسیں معطل ہو گئیں۔ تاحال وہ یہ نہیں جانتیں کہ وہ کب اپنی گریجوایشن مکمل کر پائیں گی۔

٭ رازداری کے مقصد سے نام تبدیل کیا گیا ہے۔