اسرائیلی وزیر دفاع کی غزہ کے کچھ حصوں کو ضم کرنے کی دھمکی

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 21 مارچ 2025 20:40

اسرائیلی وزیر دفاع کی غزہ کے کچھ حصوں کو ضم کرنے کی دھمکی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مارچ 2025ء) اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت کی طرف سے غزہ پٹی میں عسکری کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے پر عوام اپنی شدید بے چینی کا اظہار کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے غزہ میں دوبارہ عسکری کارروائیاں شروع کرنے کے ساتھ ساتھ داخلی سکیورٹی سروس کے سربراہ کو بھی برطرف کر دیا تھا۔

نیتن یاہو کے ان اقدامات پر ہزاروں اسرائیلی شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

گزشتہ کچھ روز سے تل ابیب سمیت دیگر شہروں میں عوام کا احتجاج جاری ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ حماس کی قید میں باقی ماندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے ایک نئی ڈیل کی جائے۔

یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ایک فورم نے حکومت پر غزہ میں باقی 59 یرغمالیوں کو تنہا چھوڑ دینے کا الزام عائد کیا ہے، جن میں سے کم از کم 24 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔

(جاری ہے)

رونن بار کی برطرفی کا فیصلہ منجمد

جمعرات کی رات یروشلم میں بھی ایک عوامی مظاہرہ کیا گیا، جس میں اسرائیل کے وزیر اعظم کی طرف سے ملک کی داخلی سکیورٹی سروس کے چیف رونن بار کے برطرف کیے جانے کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ نیتن یاہو کے بقول وہ رونن بار پر مزید اعتماد کرنے کے قابل نہیں رہے، اس لیے انہیں اس عہدے سے ہٹایا گیا۔

تاہم جمعے کے دن اسرائیلی سپریم کورٹ نے رونن بار کو برطرف کرنے کے حکومتی فیصلے کو منجمد کر دیا۔ حکومت کی جانب سے شین بیت کے سربراہ رونن بار کو برطرف کرنے کے فیصلے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد حزب اختلاف کی جماعتوں اور ایک غیر سرکاری تنظیم نے الگ الگ اپیلیں دائر کر دی تھیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم پر دباؤ بڑھتا ہوا

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو گزشتہ کچھ ہفتوں سے اپنی سیاسی بقا کی خاطر تگ و دو کر رہے ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دینے کی دھمکیاں دے رہی ہیں جبکہ باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے عوامی مطالبات بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں حماس کے جنگجوؤں کا خاتمہ چاہتی ہیں جبکہ عوام کا کہنا ہے کہ ان عسکریت پسندوں کو مکمل شکست دینے کے بجائے یرغمالیوں کی واپسی کو فوقیت دی جائے۔

واضح رہے کہ یورپی یونین کے ساتھ ساتھ امریکہ اور متعدد مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

بفر زون کو وسعت دی جا سکتی ہے، اسرائیلی وزیر دفاع

اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس کے جنگجو فلسطینی علاقے غزہ پٹی میں قید باقی یرغمالی رہا نہیں کرتے، تو غزہ پٹی کے کچھ حصوں کو اسرائیل میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

کاٹز نے کہا، ''میں نے (فوج کو) غزہ میں مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کا حکم دے دیا ہے، حماس کے جنگجو یرغمالیوں کو رہا کرنے سے جتنا زیادہ انکار کریں گے، وہ اتنا ہی زیادہ علاقہ کھو دیں گے، جسے اسرائیل کا حصہ بنا دیا جائے گا۔‘‘ تاہم فرانسیسی وزارت خارجہ نے غزہ پٹی کے کسی بھی حصے کو اسرائیل میں ضم کرنے کی مخالفت کی ہے۔

کاٹز نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر حماس کے جنگجو ہدایات پر عمل نہیں کرتے تو 'غزہ کے ارد گرد بفر زون کو وسعت دی جائے گی تا کہ اس علاقے پر مستقل قبضہ کر کے اسرائیلی شہری آبادی اور فوجیوں کی حفاظت کی جا سکے۔

‘‘

غزہ میں اسرائیل کی تازہ فضائی اور زمینی کارروائیوں نے 19 جنوری کوجنگ بندی کے بعد سے علاقے میں قائم نسبتا پرسکون ماحول توڑ دیا ہے۔ اسرائیل نے منگل کے روز جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی مدت اس ماہ کے اوائل میں ختم ہونے کے بعد سے پہلی مرتبہ، اگلے اقدامات پر بالواسطہ مذاکرات میں تعطل کا حوالہ دیتے ہوئے، غزہ پر شدید بمباری کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا تھا۔

غزہ کے شہری دفاع کے ادارے نے جمعرات کے روز کہا کہ اسرائیلی بمباری دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے تب تک 504 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔

یہ تنازعہ کب اور کیسے شروع ہوا؟

سات اکتوبر 2023ء کو حماس کے عسکریت پسندوں نے غزہ پٹی سے اسرائیل میں داخل ہو کر اچانک ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے جبکہ یہ جنگجو 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔

اس دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے خصوصی عسکری آپریشن شروع کیا تھا، جو حالیہ سیزفائر تک جاری رہا تھا۔

غزہ پٹی میں حماس کے طبی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران اب تک مجموعی ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 49600 ہو چکی ہے، جن میں سے بہت بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔

تدوین: افسر اعوان، مقبول ملک