اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) نے پیر کو مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی شہریوں کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری طور پر درکار امداد کو ''یقینی بنانے اور سہولت فراہم کرنے‘‘ کی اسرائیل کی ذمہ داریوں کے حوالے سے سماعت شروع کر دی ہے، جس سے غزہ میں جاری تنازعہ ایک بار پھر دی ہیگ میں توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
ایک اعلیٰ فلسطینی عہدیدار عمار حجازی نے پیر 28 اپریل کے روز اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف کو بتایا کہ اسرائیل غزہ کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امداد کو بطور 'جنگی ہتھیار‘ استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے ججوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ''بھوک یہاں موجود ہے۔
(جاری ہے)
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امداد کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
‘‘ایک ہفتے تک سماعتی نشستوں کے دوران درجنوں ممالک اور تنظیمیں 15 ججوں کے پینل کے سامنے اپنا اپنا موقف پیش کریں گے۔ اسرائیل اس سماعت میں حصہ نہیں لے رہا لیکن اس کا اتحادی امریکہ بدھ کو اپنا موقف پیش کرے گا۔
اسرائیل بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرے، مغربی اقوام کا مطالبہ
پہلے روز کی سماعت کے دوران عمار حجازی نے کہا، ''غزہ میں اقوام متحدہ کے تعاون سے چلنے والی تمام بیکریاں بند ہو چکی ہیں۔
ہر دس میں سے نو فلسطینیوں کو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کی اسٹوریج کی سہولیات بھی خالی ہیں۔‘‘اسرائیل غزہ کی 2.4 ملین کی فلسطینی آبادی کے لیے ناگزیر بین الاقوامی امداد کے تمام داخلی راستوں پر سخت کنٹرول رکھتا ہے۔
اقوام متحدہ نے آئی سی جے سے اس کیس پر ''انتہائی فوری‘‘ فیصلہ دینے کی درخواست کی ہے لیکن عدالت کو اپنی حتمی رائے دینے میں کئی ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔
عدالت کے جج اسرائیل کی قانونی ذمہ داریوں پر غور کریں گے کہ آیا وہ اقوام متحدہ، اس کی ایجنسیوں، بین الاقوامی تنظیموں، یا تیسرے فریق ممالک کے ساتھ مل کر''فلسطینی شہری آبادی کی بقا کے لیے ناگزیر فوری امدادی سامان کی بلا روک ٹوک فراہمی کو یقینی‘‘ بنا رہا ہے۔
اسرائیل کا موقف
اسرائیل کے وزیر خارجہ گیدون سعار نے ان سماعت کو اپنے ملک کے خلاف ''منظم ایذا رسانی اور غیر قانونی‘‘ قرار دیا ہے۔
دی ہیگ میں پیر کے روز سماعت کے آغاز پر یروشلم سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا، ''عدالت مکمل طور پر سیاسی ہو رہی ہے۔‘‘انہوں نے اس کارروائی کو ''شرمناک‘‘ قرار دیا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو ہٹا کر غزہ میں امداد پہنچانے کے متبادل طریقوں کی تلاش کر رہے ہیں۔
عدالتی سماعت کا پس منظر
اس عدالتی سماعت کا آغاز ایک ایسے وقت پر ہوا ہے، جب غزہ پٹی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کی جانی والی امداد کا نظام تقریباً ختم ہونے کے قریب ہے۔
اسرائیل نے دو مارچ سے خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر ضروری سامان کی غزہ پٹی کو ترسیل روک رکھی ہے۔یہ سماعت گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس درخواست کے جواب میں شروع کی گئی ہے، جس میں ناروے کی سرپرستی میں ایک قرارداد کے ذریعے اس اعلیٰ عدالت سے غیر پابند لیکن قانونی طور پر اہم ''مشاورتی رائے‘‘ طلب کی گئی تھی۔ قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ''فلسطینی شہری آبادی کی بقا کے لیے ناگزیر فوری امدادی سامان کی بلا روک ٹوک فراہمی کو یقینی بنائے اور اس حوالے سے سہولت فراہم کرے۔‘‘
ادارت: عاطف بلوچ، مقبول ملک