Live Updates

ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل، خیبر پختونخوا ہ کے سرکاری بینک اکاﺅنٹس سے 40 ارب روپے سے زائد کی خوردبرد کا انکشاف

50 کے قریب بینک اکاﺅنٹس منجمد کر تے ہوئے تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا، نیب خیبر پختونخوا ہ کی ٹیم کا تمام متعلقہ ریکارڈ قبضے میں لیکر ابتدائی انکوائری سے مکمل تحقیقات میں تبدیل کرنے کا فیصلہ

Faisal Alvi فیصل علوی بدھ 30 اپریل 2025 12:45

ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل، خیبر پختونخوا ہ کے سرکاری بینک ..
پشاور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30اپریل 2025)ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل سامنے آیا ہے جس میں خیبر پختونخواہ کے سرکاری بینک اکاﺅنٹس سے 40 ارب روپے سے زائد کی خوردبرد کا انکشاف ہوا ہے،50 کے قریب بینک اکاﺅنٹس منجمد کر تے ہوئے تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا،جیو نیوز کے مطابق جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں مزید دھماکہ خیز انکشافات کی توقع ہے اور امکان ہے کہ صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران بھی اس سکینڈل میں ملوث پائے جائیں گے۔

دستاویزات کے مطابق کوہستان میں سرکاری فنڈز کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور غیر قانونی نکاسی کے معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے 50کے قریب بینک اکاﺅنٹس منجمد کر دیئے ہیں۔نیب خیبر پختونخوا ہ کی ٹیم نے کئی دن داسو کوہستان میں گزار کر تمام متعلقہ ریکارڈ قبضے میں لیا۔

(جاری ہے)

کرپشن کے اس بڑے حجم کو دیکھتے ہوئے نیب حکام نے اس معاملے کو ابتدائی انکوائری سے مکمل تحقیقات میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق نیب کے چیئرمین کو اپر کوہستان میں بڑے مالی بے ضابطگیوں سے متعلق مصدقہ معلومات موصول ہوئیں۔ جس کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ اگرچہ ضلع کا سالانہ ترقیاتی بجٹ صرف 50کروڑ سے ڈیڑھ ارب روپے کے درمیان ہوتا ہے لیکن 2020 سے 2024کے درمیان پانچ برسوں میں 40 ارب روپے حکومتی بینک اکاﺅنٹس سے جعلی طورپر نکلوائے گئے یہ رقم کئی دہائیوں کے ترقیاتی فنڈز سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

یہ جدید اور پیچیدہ مالیاتی فراڈ نیب کے تجربہ کار تفتیش کاروں کو بھی حیران کر گیا۔ ابتدائی تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ ضلع کے سرکاری اکاﺅنٹس سے تقریباً ایک ہزار جعلی چیکس جاری کئے گئے جبکہ اب تک 50 مشتبہ اکاﺅنٹ ہولڈرز کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ شواہد سے بااثر سیاسی اور اعلیٰ سرکاری شخصیات کی شمولیت کے واضح آثار ملے ہیں۔تحقیقات کے دوران مبینہ طورپر ایک حیران کن انکشاف ہوا کہ ایک ڈمپر ڈرائیور ممتاز کے اکاﺅنٹس میں تقریباً ساڑھے چار ارب روپے موجود تھے۔

جنہیں فوری طور پر نیب نے منجمد کر دیاگیا ہے۔ مذکورہ ڈرائیور نے ایک فرضی کنٹسٹرکشن کمپنی بنا رکھی تھی۔ شواہد کے مطابق کل ملا کر اسکے اکاﺅنٹس میں تقریباً 7 ارب روپے مشکوک ٹرانزیکشنز کے ذریعے جمع کرائے گئے۔ صوبائی حکومت کے بینک اکاﺅنٹ سیکورٹی اینڈ ڈپازٹ ورکس 10113سے اربوں روپے کنٹریکٹرز سیکورٹی کی آڑ میں نکلوائے گئے۔یہ اکاﺅنٹ جو ترقیاتی منصوبوںکے فنڈز، کنٹریکٹر سیکورٹیز اور ادائیگیوں کیلئے مخصوص تھا، اسے جعلی دستاویزات، بڑھا چڑھا کر بنائے گئے بلوں اور فرضی سیکورٹیز کے ذریعے استعمال کیا گیا۔

اب تک کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ تقریباً 40 ارب روپے منظم انداز میں نکلوائے گئے جو خیبر پختونخوا ہ کے مالیاتی نظام کی صریح خلاف ورزی ہے۔یہ پیچیدہ اور کئی تہوں پر مشتمل فراڈ اپر کوہستان کے کمیونی کیشن اینڈ ورکس (C&W) ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے کیا گیا۔ جس نے جعلی سیکورٹی ریفنڈز تیار کئے۔ ریکارڈ میں رد و بدل کیا۔ منصوبوں کی لاگت کو بڑھا چڑھا کر دکھایا، اور فرضی کنٹریکٹر سیکورٹیز کی منظوری دی۔

ضلع کے اکاﺅنٹس آفیسر (DAO) نے جنرل فنانشل رولز (GFR) اور ٹریڑری رولز کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر مجاز ادائیگیاں منظور کیں۔ سرکاری اہلکاروں اور نجی ٹھیکیداروں کی ملی بھگت سے ایسے منصوبوں کے جعلی بلز جمع کرائے گئے جو کبھی بنے ہی نہیں۔ سرکاری بینک کے داسو اپر کوہستان برانچ کے کچھ ملازمین نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ضوابط اور اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری فنڈز نجی اکاﺅنٹس میں منتقل کئے۔

ثبوت محفوظ رکھنے کیلئے ضلع اکاﺅنٹس آفس، C&W ڈیپارٹمنٹ، سرکاری بینک اور متعلقہ اکاﺅنٹس کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ ڈمپر ڈرائیور کے اکاﺅنٹس کے ساتھ ساتھ مزید 10 ارب روپے مالیت کے اکاﺅنٹس بھی منجمد کر دیئے گئے ہیں۔نیب خیبر پختونخوا کی ٹیم نے کئی دن داسو کوہستان میں گزار کر تمام متعلقہ ریکارڈ قبضے میں لیا۔ کرپشن کے اس بڑے حجم کو دیکھتے ہوئے نیب حکام نے اس معاملے کو ابتدائی انکوائری سے مکمل تحقیقات میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق سکینڈل نہ صرف خیبر پختونخوا ہ کے مالیاتی نظام کی سنگین خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ ممکنہ طور پر دانستہ طور پر کی گئی مالیاتی تباہ کاری کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ شواہد یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اس کارروائی میں صرف چند بدعنوان اہلکار ہی نہیں بلکہ صوبے کی اعلیٰ قیادت کے کچھ عناصر بھی شامل تھے جنہوں نے مالیاتی قواعد کو نظر انداز کرنے کی دانستہ اجازت دی۔ اکاﺅنٹنٹ جنرل کے دفتر اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آڈٹ جیسے نگران ادارے بھی اس دھوکا دہی کو نہ روک سکے اور نہ ہی وقت پر اس کا پتا چلا سکے جس سے احتسابی نظام پر سنجیدہ سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

Live پہلگام حملہ سے متعلق تازہ ترین معلومات