ای آبیانہ وصولی، پنجاب کے کسانوں کے لیے درد سر

DW ڈی ڈبلیو منگل 6 مئی 2025 13:20

ای آبیانہ وصولی، پنجاب کے کسانوں کے لیے درد سر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 مئی 2025ء) پاکستانی کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی فصلوں کی کم قیمتوں کی وجہ سے بھاری نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں اور اب پنجاب حکومت نے ان پر آبیانہ فیس میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے، جو ان کے نزدیک موجودہ حالات میں کسی طور پر بھی جائز نہیں۔

پنجاب حکومت کی طرف سے متعارف کرائے گئے ای آبیانہ نظام کی بدولت کسان اپنی پانی کی فیس کی صورتحال خود چیک کر سکتے ہیں۔

یہ نظام پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے تیار کیا ہے تاکہ آبپاشی کی فیس، جسے کسانوں میں آبیانہ وصولی کے طور پر جانا جاتا ہے، کو منظم انداز میں وصول کیا جا سکے۔ آبیانہ ایسے زمین مالکان سے لیا جاتا ہے ، جن کی زمینیں نہری پانی سے سیراب ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

ای آبیانہ نظام دو ہزار بیس میں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں عثمان بزدار کے دورِ اقتدار کے دوران شروع کیا گیا تھا، جس کے تحت ابتدائی طور پر الیکٹرانک بل آزمائشی منصوبے کے طور پر جاری کیے جا رہے تھے۔

بعد ازاں پنجاب حکومت نے اس منصوبے کو بتدریج وسعت دی، تاہم زیادہ تر کسان پرانے نظام کے تحت، جو پٹواریوں اور دیہات کے نمبرداروں کے ذریعے چلتا تھا، آبیانہ فیس ادا کرتے رہے۔ اب پنجاب حکومت نے ای آبیانہ نظام کا دائرہ کار پورے صوبے تک پھیلا دیا ہے۔

نئے نظام کے تحت، ہر یونین کونسل کے پٹواریوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ دیہات کا سروے کریں اور یہ نوٹ کریں کہ کس کسان نے کون سی فصل کاشت کی ہے اور اسی حساب سے متعلقہ کسان کے نام پر آبپاشی کا بل درج کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں محکمہ آبپاشی کسانوں کو ای بل جاری کرتا ہے، جنہیں وہ دیگر یوٹیلیٹی بلز کی طرح قریبی بینکوں میں جمع کرا سکتے ہیں۔

کیا کسان نئے نظام سے مطمئن ہیں؟

کسان نہ صرف پانی کے بل میں اضافے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ ای آبیانہ نظام کے مؤثر ہونے پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نظام کو صوبہ پنجاب بھر میں مکمل طور پر نافذ کرنے سے پہلے اس میں بہتری کی اشد ضرورت تھی اور ابھی اس پر مزید کام درکار ہے۔

ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ کے کسان شہزاد احمد نے بتایا کہ پٹواری اپنا کام صحیح سے نہیں کر رہے ہیں اور ہر کسی کو فی ایکڑ بارہ سو روپے کے فلیٹ ریٹ پر بل دیا جا رہا ہے۔ کٹھور گاؤں کے اس کسان نے مزید کہا، ''حکومت نے نیا نظام تو متعارف کرا دیا ہے لیکن زمینوں کا ریکارڈ اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ لوگوں کو ایسے بل موصول ہو رہے ہیں جن پر ان کے بزرگوں کے نام درج ہیں، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے جبکہ وہ زمینیں اب تقسیم ہو چکی ہیں اور ان کے کئی مالکان ہیں۔

‘‘

اسی علاقے کے ایک اور کسان شفاقت احمد نے بتایا کہ انہیں اس زمین سے دس گنا زیادہ زمین کا بل موصول ہوا ہے، جتنی زمین حقیقت میں ان کی ملکیت ہے۔ زمین کے ریکارڈ کے مطابق ان کے پاس کم زمین ہے لیکن محکمہ آبپاشی نے اسے کئی ایکڑ زیادہ زمین کا بل بھیج دیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمے کے زمین کے مالکوں سے متعلق ریکارڈ میں شدید خرابیاں ہیں۔

مزید برآں انہوں نے بتایا کہ جب وہ بل کی درستی کے لیے پٹواری کے پاس جاتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کا کام نہیں، اس لیے محکمہ آبپاشی سے رجوع کیا جائے اور جب وہاں رابطہ کیا جاتا ہے تو وہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کا راستہ دیکھا دیتے ہیں لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا، ''یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بل درست مالک کے نام پر اور صحیح رقبے کے مطابق بھیجے۔

‘‘

حکومت نے آبیانہ کتنا بڑھا دیا ہے؟

حکومت نے آبپاشی کے لیے نہری پانی کے چارجز کو چار گنا بڑھا دیا ہے۔ شہزاد احمد نے بتایا کہ پہلے یہ صرف تین سو روپے فی ایکڑ تھا لیکن اب انہیں خریف کی فصل کے لیے بارہ سو روپے فی ایکڑ کے حساب سے بل موصول ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں بالکل اندازہ نہیں کہ ربیع کی فصلوں، جیسے گندم اور مکئی ، جو ان کے علاقے میں زیادہ کاشت کی جاتی ہیں ، پر حکومت پانی کا ٹیکس کتنا عائد کرے گی۔

شہزاد احمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ نہریں تو آج کال زیادہ تر حشک رہتی ہیں اور انہیں ٹیوب ویلز کے ذریعے پانی کی طلب پوری کرنا پڑتی ہے، ''ایسی صورت میں آبیانہ فیس بڑھانا مزید عجیب اقدام ہے جبکہ کسانوں کو نہری پانی بھی تقریبا عدم دستیاب ہو۔‘‘

کسانوں کے نمائندے اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ اضافہ کسی صورت جائز نہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کاشت کار اپنی فصلوں کی پیداواری لاگت بھی پوری نہیں کر پا رہے۔

کسانوں کی ایک نمائندہ تنظیم سے وابستہ خالد کھوکھر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بڑھائے گئے آبپاشی بل ممکن ہے، پنجاب حکومت معاف کر دے، کیونکہ وزیر اعلیٰ کے سامنے آبیانہ بل ختم کرنے کی سمری پیش کی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بلوں میں کمی کر دی گئی ہے، '' آئندہ بھی بل اسی تناسب سے بھیجے جائیں گے اور یہ اضافہ کسی طور مناسب نہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت گندم کی فی من پیداوار کی لاگت تین ہزار روپے سے زیادہ ہے جبکہ کاشت کاروں کو صرف بائیس سو روپے فی من دیے جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر ایک سو روپے کا بھی اضافہ کر دیا جائے تو وہ ایک غریب کسان پر لاکھوں روپے کا بوجھ ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔