مخصوص نشستوں کی نظرثانی پر فریقین کو نوٹس، توہین عدالت کی درخواست بھی سماعت کیلئے منظور

سپریم کورٹ کے 13 رکنی آئینی بینچ کے 11 ججز نے اکثریت سے نوٹس جاری کردیئے، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلاف، دونوں ججز نے نظرثانی درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیں

Sajid Ali ساجد علی منگل 6 مئی 2025 13:22

مخصوص نشستوں کی نظرثانی پر فریقین کو نوٹس، توہین عدالت کی درخواست بھی ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 06 مئی 2025ء ) سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں پر نظرثانی اپیلوں پر فریقین کو نوٹس جاری کردیئے، توہین عدالت کی درخواست بھی سماعت کے لیے منظور کرلی گئی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس پر سماعت ہوئی جہاں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 13 رکنی بینچ یہ کیس سن رہا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان بھی بینچ کا حصہ ہیں، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال کو بھی بینچ کا حصہ بنایا گیا ہے، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق، جسٹس باقر نجفی بینچ میں شامل ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ آج کی سماعت کے دوران مسلم لیگ ن کے وکیل حارث عظمت روسٹرم پر آئے اور دلیل دی کہ ’مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق نہیں تھی‘، اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ’اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے، آپ کی نظرثانی کی بنیاد کیا ہے؟‘، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’آپ کا پورے فیصلے سے اختلاف ہے یا پھر اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہیں؟‘، وکیل حارث عظمت نے جواب دیا کہ ’ہمارا اختلاف اکثریتی ججز سے ہے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی نشستیں دینے کی استدعا ٹیکنیکلی مسترد کی تھی‘۔

(جاری ہے)

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ’نظرثانی کا سکوپ محدود ہے اس پر دوبارہ دلائل نہیں دے سکتے، کیا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا؟‘، وکیل ن لیگ بولے کہ ’مجھے اس بارے علم نہیں ہے‘، جسٹس عائشہ ملک نے قرار دیا کہ ’آپ کو کیسے پتا نہیں نظرثانی آپ نے خود دائر کی ہے‘، جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے کہ ’ آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں اسے چھوڑ دیں، سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا، آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے؟ جو باتیں آپ بتا رہے ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں، کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے، آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دیں‘۔

جسٹس عقیل عباسی نے سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ ’پہلے الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہینِ عدالت کی درخواست نہ سُن لیں؟ کیا توہین عدالت کی درخواست بھی آج مقرر ہے؟‘، جس پر وکیل پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ’بالکل آج توہین عدالت کی درخواست بھی مقرر ہے‘، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ’الیکشن کمیشن نے جس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا اُس پر نظرثانی مانگ رہا ہے، الیکشن کمیشن کو مرکزی کیس میں بھی کہا تھا کہ آپ کا رویہ ایک پارٹی کا ہے‘۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے 11 ممبران نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواست ابتدائی سماعت کیلئے منظور کر کے نوٹس جاری کردیئے، جب کہ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی درخواستیں خارج کر دیں، آئینی بنچ نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہینِ عدالت کی درخواست بھی کیس کے ساتھ ہی سُنیں گے‘۔