’جو کچھ ہوا وہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے اور اس کی آزادی ختم کرنے کے مترادف ہے‘

ٹرانسفر و سنیارٹی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کا سپریم کورٹ میں تحریری مؤقف

Sajid Ali ساجد علی جمعرات 15 مئی 2025 16:02

’جو کچھ ہوا وہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے اور اس کی آزادی ختم کرنے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 مئی2025ء) ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز کا سپریم کورٹ میں تحریری معروضات میں مؤقف سامنے آگیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس باہر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت نے تحریری بیان میں کہا ہے کہ ہم نے وکیل کی حیثیت سے اپنے پیشے میں عزت، شہرت اور مالی کامیابی حاصل کی لیکن جب ہم نے جج کا عہدہ قبول کیا تو ہمیں تنخواہ میں کمی کا سامنا کرنا پڑا، پھر بھی یہ ہمارے لیے ایک اعزاز تھا کیوں کہ ہمیں عوام کی خدمت اور اس معاشرے کو کچھ لوٹانے کا موقع ملا، ہم نے یہ آئینی عہدے عاجزی کے ساتھ قبول کیے، یہ جانتے ہوئے کہ انصاف کرنا ایک مقدس ذمہ داری ہے، جو ایک امانت ہے اور جس کے بارے میں ہمیں دنیا اور آخرت میں جواب دینا ہوگا۔

(جاری ہے)

5 ججز کا مزید کہنا ہے کہ ہم نے جو حلف لیا اس میں وعدہ کیا کہ ہم بغیر کسی خوف، رعایت یا جانبداری کے انصاف کریں گے، آئین اور قانون کے مطابق ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کرنا صرف اسی صورت ممکن ہے جب عدلیہ آزاد ہو، ہمارا یقین ہے کہ اگر کوئی جج اپنی یا اپنے ادارے کی آزادی چھوڑ دے تو وہ نہ انصاف کی امانت کا حق ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی عدلیہ کی حرمت کو قائم رکھ سکتا ہے اور جب عدلیہ کی اخلاقی طاقت ختم ہو جائے تو اس کے فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔

ججز کا مؤقف ہے ک ہم اس مقدمے سے نہ کوئی ذاتی فائدہ چاہتے ہیں اور نہ ہی ہمیں کوئی شہرت چاہیئے، اگر یہ صرف ہماری سنیارٹی کا مسئلہ ہوتا تو شاید برداشت کیا جا سکتا تھا لیکن جو کچھ ہوا وہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے اور اس کی آزادی کو ختم کرنے کے مترادف ہے اور یہ ناقابلِ قبول ہے، آئین کے مطابق ہائیکورٹ صرف چیف جسٹس کا نام نہیں بلکہ تمام ججوں پر مشتمل ہوتی ہے، ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جج ہونے کا مطلب ہے کہ جو کچھ آپ کے دور میں ہو رہا ہے، اس کی ذمہ داری آپ پر بھی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5ججز نے کہا کہ ہم نے عدالتی آزادی کو بچانے اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے انتظامی کوششیں کیں لیکن جب وہ کامیاب نہ ہو سکیں تو یہ درخواست دائر کرنا ہماری آخری کوشش بن گئی، ہم جانتے ہیں کہ بطور جج ہمیں اس ملک کے عوام، تاریخ اور بالآخر اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا ہے، ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے اور لوگ یہ یاد رکھیں کہ جب حالات مشکل تھے تو ہم آئین، قانون اور عدلیہ کی آزادی کے دفاع میں ڈٹ کر کھڑے ہوئے۔