9 مئی کی ایف آئی آریکجا کرنے کامعاملہ ، سپریم کورٹ نے فواد چوہدری کا کیس دوبارہ لاہور ہائیکورٹ بھجوا دیا

عدالت کے حکم اور شاہی فرمان میں فرق ہونا چاہیے،عدالتی فیصلہ ہمیشہ وجوہات پر مبنی ہونا چاہیے، لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے رٹ مسترد کرنے کی وجوہات فراہم نہ کرنا ایک بڑی قانونی خامی ہے، سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس

Faisal Alvi فیصل علوی منگل 20 مئی 2025 11:23

9 مئی کی ایف آئی آریکجا کرنے کامعاملہ ، سپریم کورٹ نے فواد چوہدری کا ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20 مئی 2025)سپریم کورٹ نے فواد چوہدری کے خلاف 9 مئی کے واقعات سے متعلق درج متعدد ایف آئی آرز کو یکجا کرنے کے معاملے پر لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کیس دوبارہ ہائیکورٹ کو بھجوا دیا، سپریم کورٹ میں جسٹس ہاشم کاکڑ اور جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ عدالت کے حکم اور شاہی فرمان میں فرق ہونا چاہیے۔

عدالتی فیصلہ ہمیشہ وجوہات پر مبنی ہونا چاہیے۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ لاہور ہائیکورٹ نے فواد چوہدری کی رٹ پٹیشن مسترد کرنے کی کوئی معقول وجوہات نہیں بتائیںجو کہ قانونی طور پر ضروری ہے۔جسٹس علی باقر نجفی نے بھی نشاندہی کی کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے رٹ مسترد کرنے کی وجوہات فراہم نہ کرنا ایک بڑی قانونی خامی ہے۔

(جاری ہے)

ایک واقعے پر پانچ سو مقدمات درج نہیں ہو سکتے۔

عدالت معاملے پر دوبارہ سماعت کرکے باقاعدہ سپیکنگ آرڈر جاری کرے۔فواد چوہدری نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے 9 مئی کے مقدمات پر چار ماہ میں فیصلے کا حکم دیا تھا لیکن عدالتی حکم کی وجہ سے ٹرائل کورٹ میں یہ کیس ایک عذاب بن چکا ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو اس عذاب سے نجات دلا رہے ہیں۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے فواد چوہدری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ جیل تو سیاستدانوں کو لیڈر بناتا تھا۔

آپ سیاسی آدمی ہیں جیل سے نہ ڈریں، گھبرائیں نہیں آپ محفوظ ہاتھوں میں تھے۔جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کی 9 مئی مقدمات کے خلاف درخواست پر سماعت کی تھی۔دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے اعتراضات برقرار رکھنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی تھی۔

ہائیکورٹ کا آرڈر فیصلہ کم اور شاہی فرمان زیادہ لگ رہا تھا۔فواد چوہدری نے عدالت کے روبرو مطلع کیا کہ میں 9 مئی کے بعد 7 ماہ جیل میں رہا، جیل سے نکلے تو 35 مقدمات مختلف شہروں میں درج تھے۔فواد چوہدری نے درخواست میں مو¿قف اختیار کیاتھا کہ لاہور ہائیکورٹ نے مقدمات کے خلاف درخواست پر اعتراضات لگائے گئے تھے۔ اپیل میں ججز نے اعتراضات کو برقرار رکھا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ملتان، فیصل آباد، لاہور اور راولپنڈی میں اعانت جرم کے مقدمات ہیں، اعتراض لگایا گیا کہ برانچ رجسٹری کے ہوتے ہوئے ہائیکورٹ کی پرنسپل سیٹ پر درخواست دائر نہیں ہوسکتی تھی۔سماعت کے دوران پراسیکیوشن کی جانب سے فواد چوہدری کی درخواست پر اعتراض اٹھانے پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ اگر ہائیکورٹ وجوہات پر مبنی تفصیلی فیصلہ کر دے تو پراسیکیوشن کو کیا تکلیف تھی؟۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے شائستہ لودھی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شائستہ لودھی کے ویڈیو کلپ پر 85 مقدمات درج ہوئے تھے۔ کوئٹہ میں 84 مقدمات میں نے خارج کئے تھے۔ فواد چوہدری نے ا س دوران لقمہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ پراسیکیوٹر صاحب بلاوجہ جذباتی ہو رہے تھے جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے فواد چوہدری سے کہا کہ آپ سیاسی آدمی ہیں جیل سے نہ ڈریں، جیل تو سیاستدانوں کو لیڈر بناتا تھا۔

گھبرائیں نہیں آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا تھاکہ پہلے بھی جیل گئے ہیں دوبارہ چلے جائیں گے۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ ہائیکورٹ کی پرنسپل سیٹ کے اختیارات ختم نہیں ہوسکتے۔ مختلف شہروں میں بینچ تو لوگوں کی سہولت کیلئے بنائے جاتے ہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے مزید کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی تھی۔