مخصوص نشستوں کاکیس،سنی اتحاد کونسل کے بینچ پر اعتراض سمیت 3 درخواستیں مسترد

جمعرات 22 مئی 2025 17:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مئی2025ء)سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں سنی اتحاد کونسل کے بینچ پر اعتراض سمیت 3 درخواستیں مسترد کردیں جبکہ کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے سے متعلق درخواست منظور کرلی۔جمعرات کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے سنی اتحاد کونسل کے بینچ پر اعتراض سمیت 3 درخواستیں متفقہ طور پر مسترد کردیں۔

آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی 26 ویں آئینی ترمیم کو پہلے سننے کی درخواست بھی مسترد کردی تاہم کیس کو براہ راست نشتر کرنے سے متعلق درخواست منظور کرلی گئی ہے، عدالت نے مختصر فیصلہ سنایا جبکہ تفصیلی حکم نامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔قبل ازیں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میںمخصوص نشستوں کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت میں 12 جولائی کے فیصلے کی متاثرہ خواتین کے وکلا مخدوم علی خان نے دلائل دئیے۔

(جاری ہے)

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 191 اے اور پریکٹس پروسیجر ایکٹ کے ہوتے ہوئے اس بینچ پر 1980 کے رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں سپریم کورٹ کے 1980 کے کونسے رولز نئی آئینی ترمیم سے مطابقت نہیں رکھتی مخدوم علی خان نے کہا کہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی حد تک 1980 کے رولز مطابقت نہیں رکھتے، نئی آئینی ترمیم میں آئینی بینچ کے دائرہ اختیار کا تعین کیا گیا ہے، 1980 کے رولز کے تحت نظرثانی پر سماعت پرانا بینچ کیا کرتا تھا، اب 26 ویں ترمیم کے بعد آئینی تشریح کے مقدمات کی نظرثانی آئینی بینچ کرے گا۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اس بینچ میں ججز کی تعداد کے حوالے سے اعتراض کیا، میری نظر میں یہ 11 نہیں 13 رکنی بینچ ہے، اس 13 رکنی بینچ میں سے 7 ججز کی اکثریت نظرثانی پر فیصلہ کرے گی۔مخدوم علی خان نے کہا کہ اس کیس کی براہ راست نشریات کے حوالے سے درخواست دائر کی گئی، میری رائے میں یہ اس عدالت کا فیصلہ ہوگا کہ براہ راست نشریات ہونگی یا نہیں، اگر عدالت براہ راست نشریات کا فیصلہ کرے بھی تو کوئی اعتراض نہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوسری درخواست تھی کہ 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک اس کیس کو ملتوی کیا جائے، کونسا کیس کب لگنا ہے یہ طے کرنا اس عدالت کا اختیار ہے، کسی کی خواہش نہیں،فرض کریں اگر عدالت یہ درخواست منظور کرکے کیس کی سماعت ملتوی کرتی ہے، تو پھر یہ آئینی بینچ 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک دیگر کوئی درخواستیں بھی نہیں سن سکے گا۔مخدوم علی خان نے کہا کہ کل کو دیگر کیسز کی درخواست گزار بھی اسی خواہش کا اظہار کریں گے۔

مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم 10 منٹ کی مشاورت کے بعد دوبارہ آتے ہیں، تاہم آئینی بینچ اٹھنے لگا تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے۔فیصل صدیقی نے استفسار کیا کہ کیا 26 ویں آئینی ترمیم کے جواب جواب الجواب کا حق ختم کردیا گیا ہی جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست دی اس پر مخدوم علی خان نے دلائل دیے، آپ کیا جواب الجواب کرنا چاہتے ہیں فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر 26 ویں ترمیم کے بعد جواب الجواب ختم ہوگیا ہے تو ہمیں بتا دیا جائے، میں خواجہ حارث جتنا وقت تو نہیں لوں گا جواب الجواب میں مگر مناسب وقت چاہیے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا اس کیس میں حق دعویٰ نہیں بنتا، چلتے ہوئے کیس میں اعتراضات کی درخواستیں دائر کی گئیں۔فیصل صدیقی نے اونچی آواز میں سوال کیا کہ پھر ہمیں کیوں اس کیس میں فریق بنایا گیا جس پر جسٹس امین الدین خان نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک سینئر وکیل ہیں آپ کا رویہ ناقابل قبول ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ فیصل صدیقی صاحب آپ مخدوم علی خان سے نہیں ہم سے مخاطب ہوں، چلیں ہم آپ کو فئیر ٹرائل کا موقع دیتے ہیں۔