اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 مئی 2025ء) دارالحکومت تہران سے اتوار 25 مئی کے روز موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایرانی نیوز ویب سائٹ 'انتخاب‘ نے لکھا ہے کہ پارلیمانی اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا، ''قومی سلامتی کونسل نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ نئے حجاب (ہیڈ اسکارف) قانون پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔‘‘
'انتخاب‘ نے قالیباف کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ اس نئے قانون کو ایرانی پارلیمان ہی نے منظور کیا تھا، تاہم اب قومی سلامتی کونسل نے حکم دے دیا ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔
ایران میں گزشتہ برس نو سو افراد کو سزائے موت دی گئی، اقوام متحدہ
ایران میں کی قومی سلامتی کونسل کے فیصلے کو ملکی پارلیمان کی طرف سے کیے جانے والے فیصلون پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
اس لیے کہ قومی سلامتی کونسل ملک کی اعلیٰ ترین فیصلہ ساز اتھارٹی ہے اور ملکی آئین کی رو سے وہ پارلیمان اور ملکی حکومت دونوں کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں میں ترمیم کر سکتی ہے۔
متنازعہ ہیڈ اسکارف قانون ہے کیا؟
قومی سلامتی کونسل نے ملک میں جس متنازعہ قانون پر عمل درآمد اب روک دیا ہے، وہ تہران میں قومی پارلیمان نے سخت گیر مذہبی سوچ کے حامل ارکان کی اکثریتی تائید سے گزشتہ برس منظور کیا تھا۔
سزائے موت کے حکم کے بعد معافی، ایرانی گلوکار توماج صالحی رہا
اس قانون کے تحت ایسی تمام خواتین کو، جو عوامی مقامات پر اپنی موجودگی کے دوران اپنے سر کے بالوں کو ہیڈ اسکارف کے ساتھ نہ چھپائیں، انہیں بھاری جرمانے کیے جا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایسی خواتین کو ریاست کی طرف سے مہیا کی جانے والی خدمات سے بھی محروم کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ بار بار اس قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوں، تو انہیں سزائے قید بھی سنائی جا سکتی ہے۔ اس قانون کے تحت عوامی مقامات پر ہر خاتون کے سر کے بال لازمی طور پر ڈھکے ہوئے ہونا چاہییں۔
ایران میں حجاب کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے خلاف مہم کا آغاز
نئے قانون کی شدید عوامی مخالفت
ایران میں یہ نیا قانون ابتدائی فیصلے کے مطابق گزشتہ برس دسمبر سے ہی نافذ العمل ہونا تھا، تاہم ایسا ان وسیع تر احتجاجی مظاہروں کے باعث نہیں ہو سکا تھا، جو اس قانون کے خلاف اندرون ملک اور دنیا کے کئی دیگر ممالک میں دیکھنے میں آئے تھے۔
ایران میں حجاب کی خلاف ورزی پر مزید سخت سزائیں اور جرمانے
پھر تہران حکومت نے اس قانون کو ویٹو بھی کر دیا تھا اور ساتھ ہی کہا تھا کہ وہ اس میں ترامیم بھی کرے گی۔
اس نئے قانون کے ناقدین میں موجودہ ملکی صدر مسعود پزشکیان بھی شامل ہیں، جو ایک اعتدال پسند قدامت پسند سیاست دان ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر اس متنازعہ قانون کو نافذ کر دیا گیا، تو ملک میں نئے سرے سے بدامنی اور احتجاجی مظاہرے شروع ہو جائیں گے۔
ادارت: امتیاز احمد