اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 مئی 2025ء) عید الاضحی مخص کوئی رسم نہیں یا کھانے پینے کی دعوت کا نام نہیں بلکہ عید الاضحی کے موقع پر اپنی نفسانی حیوانیت ذبح کرنے کی نیت سے جانور قربان کرنا ہی مذہبی فریضہ ہے۔ قربانی کرتے وقت اخلاص کی نیت اور عزم ہو تو پھر قربانی واقعتاً قربانی ہے۔تلخ حقیقت ہے کہ ناک رکھنے کے لیے بھاری بھرکم جانور بطور "اسٹیٹس سمبل" خریدا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں نمودونمائش کی سختی سے بیخ کنی کی جانی چاہیے۔حالیہ دنوں مہنگائی کی بازگشت کچھ زیادہ ہی سنائی دے رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی سُرخیوں اور سوشل میڈیا پر ریلز یا ویڈیوز سے عوام کو یہ زعم ہوتا ہے کہ منڈی میں کاروبار کا گراف بہت کم ہے۔ لیکن درحقیقت بہت سے لوگ معاشی وجوہات کی بنا پر بغیر جانور لیے منڈی سے واپس آجاتے ہیں۔
(جاری ہے)
اس قیامت خیز گرمی میں مویشی منڈیوں کا دورہ کرنا کسی لنکا ڈھانے سے کچھ کم نہیں۔ لہذا عوام الناس فی الحال آن لائن بکرا دیکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
آن لائن جانوروں کی خریدوفروخت کے ضمن میں عوام کو آگاہ رہنا چاہیے کہ کچھ نوسر باز شہریوں کو سبز باغ دکھا کر لوٹنے میں مصروف عمل ہیں۔ وٹس ایپ گروپس میں جو جانور دکھایا جاتا ہے وہ صارفین کو بھیجا نہیں جاتا چونکہ اس سارے معاملے میں رقم ایڈوانس وصول ہو جاتی ہے اس لیے جانور میں اگر کوئی نقص ہو تو رقم کی واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسرا یہ کہ نہایت عیاری سے جانور کی تصویر اس زاویے سے لی جاتی ہے کہ جانور فربہ اور چوڑا دکھائی دے حالانکہ صورتحال بالکل برعکس ہوتی ہے۔ جب جانور خریدار تک پہنچتا ہے تو وہ بالکل آدھا معلوم ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ جب جانور خرید کر کسی سواری پر لایا جاتا ہے تو دوران سفر یا کسی اور وجہ سے اس کی ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے یا وہ زخمی ہو جاتا ہے تو بعض دغاباز بیوپاری انہیں ہائی پوٹینسی سٹیرائیڈز کا انجیکشن لگا دیتے ہیں جس کے باعث چند گھنٹوں تو وہ جانور مصنوعی طور پر صحیح چل لیتا ہے تاہم پھر سے لنگڑانا شروع کر دیتا ہے۔ایک اور خبر جو اس وقت سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہےکہ مویشی منڈیوں میں جانوروں کے مصنوعی دانت بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ لگائے جا رہے ہیں۔ تو کہیں بکریوں کی کھالوں کے اوپر چھترے کی اون صمد بونڈ کے ساتھ چسپاں کی جا رہی ہے۔ بعض نا عاقبت اندیش بیوپاری جانوروں کو پانی میں بیسن گھول کر پلا دیتے ہیں تاکہ صحتمند معلوم ہوں کچھ وقت گزرنے کے بعد ان کی پسلیاں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔
کیا یہی ہے ہمارا اخلاقی معیار؟ان دکانداروں کے بارے میں کیا رائے قائم کی جا سکتی ہے جو غیر معیاری چارہ ، بھوسہ، دانا فروخت کرتے وقت نرخ خودساختہ طور پر بڑھا لیتے ہیں۔
عید قربان پر جہاں بیوپاریوں نے عوام کو ٹف ٹائم دے رکھا ہے وہاں قصاب بھی چھریاں تیز کرنے میں خاصے مگن ہیں۔
یوں تو قصائی سے پورے سال ہی ضرورت کے تحت پالا پڑتا ہے مگر بقرعید پر کاریگر قصاب کے نخرے ہی مان نہیں ہوتے۔
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو مگر مجھ کو لادو کہیں سے قصائی کی صورت حال ہوتی ہے۔کھال اتارنا تو ایک فن ہے، لیکن اناڑی قصائی عجلت میں بوٹیاں اور ہڈیاں بھی خوب خراب کر دیتے ہیں۔بقول ان کے کہ فینسی جانور یعنی تگڑے جانور کو قربان کرنے کے دام بھی فینسی ہوتے ہیں۔ پہلے روز گائے کی بجائے بکروں کا سپیل چلتا ہے۔آٹھ تا دس افراد ایک گروپ کی صورت میں ٹھیکا کرتے ہوئے گھروں میں داخل ہوتے ہیں، ایک گھر میں بکرے آدھے چھوڑ کر باقیوں کے گھر میں بھاگ جاتے ہیں اس طرح کلاک وائز اور اینٹی کلاک وائز ان کی سرگرمیاں شام تک چلتی ہیں۔ پھر دوسرے روز گائے کی بکنگ ہوتی ہے جس کے نرخ گائے کی قیمت سے صرف چند روپوں کی دوری پر ہوتے ہیں۔ تیسرے روز اونٹ کی قربانی میں قصاب منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ قصاب کھالیں، چربی اور آلائشیں بھی اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ پھر بھی مزید کا دعوی کرتے ہیں۔عید قربان کے تہوار کی آمد آمد پر پاکستانی عوام تمام مایوس کُن عناصر کو قابلِ اعتنا نہ سمجھتے ہوئے خوشیاں منانے کے لیے اپنے بجٹ کو ہرممکن حد تک بڑھانے کی تگ ودو میں ہیں لیکن بیوپاریوں اور قصاب کی گراں فروشی سے قربانی عوام کے لیے اب کسی چیلنج سےکم نہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔