Live Updates

غزہ کے کھنڈروں سے بلند ہوتی امید کی دھنیں

یو این اتوار 1 جون 2025 04:15

غزہ کے کھنڈروں سے بلند ہوتی امید کی دھنیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 01 جون 2025ء) غزہ شہر کے الجندی المجہول چوک میں قائم بہت بڑے پناہ گزین کیمپ کے باسی 19 ماہ سے بموں کے ہولناک دھماکے سنتے آئے ہیں لیکن اب انہیں اپنی خیمہ بستی میں بانسری کے سر بھی سنائی دینے لگے ہیں جو موت، تباہی اور مایوسی کا سامنا کرتے ان لوگوں کو زندگی، تعمیر اور امید کا پیغام دیتے ہیں۔

اس چوک میں کبھی زندگی کی چہل پہل ہوتی تھی لیکن حالیہ جنگ نے اسے کھنڈر بنا دیا ہے جہاں چار سو بے گھر لوگوں کے خیمے نظر آتے ہیں۔

انہی میں سے ایک خیمے میں احمد ابو امشا بچوں کو موسیقی کی تربیت دیتے ہیں۔

وہ خود بھی اپنے خاندان کے ساتھ ایک بوسیدہ خیمے میں رہتے ہیں لیکن انہوں نے امید پر مایوسی کو غالب نہیں آنے دیا۔ وہ بے گھر بچوں کو موسیقی سکھاتے ہیں اور انہیں گیتوں کے ذریعے خوشی کی تلاش میں مدد دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

امید کی تانیں

ابو امشا جنگ سے پہلے شمالی غزہ کے علاقے بیت حنون میں رہتے تھے۔

وہ گٹار بجانے کے ماہر اور ایڈورڈ سعید نیشنل کنزرویٹری آف میوزک کے ریجنل کوآرڈینیٹر بھی ہیں۔ غزہ کی حالیہ جنگ میں ان کا خاندان 12 مرتبہ بے گھر ہو چکا ہے اور ہر نقل مکانی میں انہوں نے آلات موسیقی کو اپنے ساتھ رکھا۔

وہ کہتے ہیں کہ موسیقی ہی واحد چیز ہے جو ان کی امید کو ماند نہیں پڑنے دیتی۔

UN News
احمد ابو امشا بچوں کو موسیقی کی تربیت دیتے ہیں۔

غزہ کے نغمہ سنج پرندے

اس کیمپ میں روزمرہ زندگی تکالیف سے بھرپور ہے جہاں پانی حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں اور جینے کے لیے روزانہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ تاہم، تاریک حالات میں بھی ابو امشا نے ایک غیرمعمولی کام کیا ہے۔ انہوں نے 'غزہ کے نغمہ سنج پرندے' کے نام سے موسیقی کا ایک گروپ بنایا ہے جو بے گھر بچوں پر مشتمل ہے۔

انہیں یہ خیال اس وقت آیا جب وہ نقل مکانی کے بعد خان یونس کے علاقے المواصی میں مقیم تھے۔ اس جگہ انہوں نے بچوں کو گیت گانے اور کھیلنے کی تربیت دینا شروع کی۔ ان کا قائم کردہ یہ موسیقی گروپ متعدد کیمپوں میں فن کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ اس کی موسیقی سوشل میڈیا پر بھی گونجی جو تباہی کے درمیان امید کی غیرمعمولی کرن سے مشابہت رکھتی ہے۔

تحفظ کا احساس

ان کے بیٹے معین نے بجاتے ہیں جو بانسری سے مشابہ ساز ہے۔

یہ لوگ جہاں کہیں بھی جائیں معین اپنی نے ہمیشہ ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد یہ کیمپ ان کا 12واں ٹھکانہ ہے اور نے ہی انہیں بموں کی ہولناک آوازیں بھلانے میں مدد دیتی ہے۔

ان کا کہنا ہےکہ غزہ کے موجودہ حالات میں موسیقی بجانے کے لیے خاموش جگہ ڈھونڈنا بہت مشکل ہے لیکن وہ جیسے تیسے اپنے خیمے میں ہی رہ کر اس کی مشق کرتے ہیں۔

ابو امشا سے وائلن سیکھنے والی نوعمر یارا بھی کئی مرتبہ بے گھر ہو چکی ہیں اور ہر نقل مکانی ان کی تھکن اور مصائب میں اضافہ کر دیتی ہے۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ جب وہ خوف محسوس کریں تو وائلن بجاتی ہیں جس سے انہیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔

کیمپ میں خیموں کی ترپال سے بنی چھتوں تلے رہنے والے بچے ابو امشا کے پاس آ کر کھیلتے، آلات موسیقی کی تاریں چھیڑتے اور گیت گاتے ہیں اور یہ سرگرمی انہیں بموں کے دھماکوں کی دل دہلا دینے والی آوازیں بھلا دیتی ہے۔

UN News
ایک فلسطینی لڑکا ابو امشا کے خیمے میں بیٹھے ساز بجانے کی مشق کر رہے ہیں۔

امن اور زندگی کے گیت

غزہ کے لوگ اپنی بقا کے لیے درکار بنیادی ضرورت کی چیزوں سے محروم ہیں اور ایسے حالات میں موسیقی کی آواز بیک وقت تصوراتی اور مقدس محسوس ہوتی ہے۔

ابو امشا ثابت قدمی سے اپنے مقصد کو لے کر چل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے شاگرد امن، زندگی اور غزہ کے لیے گاتے ہیں۔

یہ بات کرتے ہوئے ان کے عقب میں عود کی مدھر تان بلند ہوتی ہے جو جنگ سے تباہ حال منظر میں کومل خوبصورتی کا احساس بھر دیتی ہے۔

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات