اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 جون 2025ء) یوکرین کی جانب سے اختتام ہفتہ پرروس کے متعدد فضائی اڈوں پر اچانک اور مربوط ڈرون حملوں کو تین سال سے جاری اس جنگ کے دوران سب سے جرات مندانہ اور دور رس حملوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ اس حملے نے پہلی بار سائبریا تک روسی حدود میں اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا، جس سے روسی فضائیہ کو زبردست دھچکا پہنچا۔
یوکرین کا دعویٰ ہے کہ اس کارروائی میں روس کے تقریباً 41 جنگی طیارے، جن میں Tu-95، Tu-22M اور A-50 شامل ہیں،تباہ یا شدید متاثر ہوئے، جو کہ روسی اسٹریٹجک بمبار بیڑے کا تقریباً ایک تہائی حصہ بنتا ہے۔ تاہم ماسکو نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ صرف چند طیارے متاثر ہوئے ہیں۔ آزاد ذرائع سے ان متضاد دعوؤں کی تصدیق ممکن نہیں ہو سکی، البتہ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں چند بمبار طیاروں کو نشانہ بنتے دکھایا گیا ہے۔
(جاری ہے)
حملے کی نوعیت اور تیاری
یوکرینی حکام کے مطابق یہ کارروائی 18 ماہ کی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھی، جس میں ٹرکوں میں چھپائے گئے ڈرونز کے زریعے مختلف فضائی اڈوں پر حملہ کیا گیا۔ یہ حملے ساراتوف کے قریب اینگلز ایئر بیس، آرکٹک کے علاقے میں واقع اولینیا بیس، اور سائبریا میں بیلایا ایئر بیس سمیت کم از کم چار بڑے اڈوں پر کیے گئے۔
ماہرین کے مطابق سیٹلائٹ تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ اولینیا ایئر بیس پر کئی Tu-95 طیارے متاثر ہوئے، جب کہ مشرقی سائبریا کے بیلایا اڈے پر Tu-22M بمبار تباہ کیے گئے۔ روسی وزارتِ دفاع نے اعتراف کیا کہ کچھ طیارے آگ کی لپیٹ میں آئے، لیکن دعویٰ کیا کہ آگ پر قابو پا لیا گیا ہے۔
ان حملوں کی حکمت عملی اور نفاست اس حد تک غیر معمولی تھی کہ بعض روسی فوجی تجزیہ کاروں نے اس کا موازنہ 1941 میں جاپانی افواج کی پرل ہاربر پر یلغار سے کیا، تاہم بعض دیگر نے اس تشبیہ کو مسترد کر دیا اور دعویٰ کیا کہ یوکرینی بیانیہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔
روسی فضائی قوت کو ناقابل تلافی نقصان
حملے کا مرکز روس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار طیارے تھے، جو دہائیوں سے روس کے جوہری ہتھیاروں کے سہ جہتی نظام (triad) کا اہم جز رہے ہیں۔ ان میں سب سے معروف Tu-95 "بیئر" بمبار ہے، جو 1950 کی دہائی میں تیار کیا گیا تھا اور جو ایک وقت میں آٹھ کروز میزائل لے جا سکتا ہے۔ روس کے پاس ایسے تقریباً 60 طیارے موجود تھے۔
دوسرا بڑا ہدف Tu-22M "بیک فائر" بمبار طیارے تھے، جن کی تعداد 50 سے 60 کے درمیان بتائی گئی تھی۔ یہ طیارے آواز کی رفتار سے تین گنا تیز Kh-22 میزائل لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم ان کے ہدف پر درست نشانہ لگانے کی صلاحیت محدود ہے۔
A-50 طرز کا طیارہ بھی نشانے پر آیا، جو فضائی نگرانی اور کنٹرول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور امریکی AWACS طیاروں سے مشابہت رکھتا ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق، اس نوعیت کے طیاروں کی روسی فضائیہ میں قلیل تعداد ان کے نقصان کو کی شدت کو بڑھا سکتی ہے۔اسٹریٹیجک جھٹکا
ماہرین کے مطابق سوویت یونین کے زوال (1991) کے بعد ان طیاروں کی پیداوار بند ہو چکی ہے، اس لیے ان کی جگہ لینے کا فوری کوئی طریقہ موجود نہیں۔ بین الاقوامی ادارہ برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ماہر ڈگلس بیری کا کہنا ہے، "یہ حملہ روسی فضائیہ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، اور ممکن ہے کہ اس سے ماسکو کے نئے بمبار طیاروں کے منصوبے میں تیزی لائی جائے۔
"روسی دفاعی تیاری پر سوالات
یہ ڈرون حملہ روسی سکیورٹی حکمت عملی پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر زیر گردش تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی طیاروں کو صرف پرانے ٹائروں سے ڈھانپ کر حفاظت فراہم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جسے تجزیہ کاروں نے "نمائشی اقدام" قرار دیا ہے۔
عالمی ردعمل
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسیتھ کو اس حملے پر بریفنگ دی گئی ہے، اور واشنگٹن کے لیے یہ حملہ یوکرین کی ٹیکنالوجی اور حملے کی حکمت عملی کے لحاظ سے حیران کن تھا۔
یہ حملہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ یوکرین اب روس کے دل تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور کریملن کو نہ صرف جنگی سازوسامان میں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی سبکی کا سامنا ہے۔
شکور رحیم اے پی کے ساتھ
ادارت: رابعہ بگٹی