اسقاط حمل جرم نہیں، برطانوی قانون ساز

DW ڈی ڈبلیو بدھ 18 جون 2025 16:00

اسقاط حمل جرم نہیں، برطانوی قانون ساز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جون 2025ء) برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں منگل کے روز ہونے والی ووٹنگ میں قانون سازوں نے ایک وسیع ''جرائم بل‘‘ میں ترمیم کی منظوری دے دی۔ اس کا مقصد خواتین کو ایک قدیم قانون کے تحت مجرم قرار دیتے ہوئے سزا دینے سے روکے گا۔ برطانوی پارلیمان کی رکن اور لیبر پارٹی کی سیاستدان تونیا اینٹونیازی نے مذکورہ قانون سے متعلق ایک ترمیم متعارف کرواتے ہوئے کہا کہ اس تبدیلی کی ضرورت اس لیے تھی کیونکہ پولیس نے گزشتہ 5 سالوں کے دوران 100 سے زائد خواتین سے مبینہ غیر قانونی اسقاط حمل کے بارے میں تفتیش کی۔

ان میں کچھ ایسی خواتین کے کیسز بھی شامل تھے، جنہیں قدرتی طور پر اسقاط حمل اور مردہ بچے کی پیدائش جیسے افسوسناک واقعات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

(جاری ہے)

تونیا اینٹونیازی نے مزید کہا،'' محض یہ قانون سازی ہی خواتین کو اس نظام انصاف سے نکال سکتی ہے کیونکہ یہ کمزور ہیں اور انہیں ہماری ضرورت ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،'' انصاف کے نام سے ان خواتین کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ دراصل انصاف نہیں ہے، اس ظلم کو اب ختم ہونا چاہیے۔

‘‘

برطانوی پارلیمان میں اسقاط حمل سے متعلق مذکورہ قانون میں ترمیم کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں 379 ووٹ اس کے حق میں جبکہ 137 اس کے خلاف دیے گئے۔ اب اس بل کو ہاؤس آف لارڈز میں پیش کیا جائے گا جہاں اس کی منظوری میں تاخیر تو ہو سکتی ہے تاہم اسے بلاک نہیں کیا جا سکتا۔

موجودہ قانون

برطانیہ، سکاٹ لینڈ اور ویلز میں موجودہ قانون کے تحت حمل کے 24 ہفتوں کے دوران اسقاط کرایا جا سکتا ہے اور اگر ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو تو، اس مدت کے بعد بھی۔

شمالی آئر لینڈ میں اسقاط حمل کو 2019 ء میں ناقابل تعزیر یا اسے جرم نہ قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

کووڈ 19 وبائی امراض اور اسقاط حمل

COVID-19 وبائی امراض کے دوران اسقاط حمل سے متعلق لاگو قانون میں تبدیلیوں کی اجازت دی گئی تھی۔ جن کے تحت خواتین کو بذریعہ ڈاک اسقاط حمل کی گولیاں حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اس طرح حاملہ خواتین حمل کے پہلے 10 ہفتوں کے اندر اندر اپنے گھر میں ہی اسقاط حمل کر سکتی تھیں۔

تاہم اسقاط حمل کے قانون میں لائی گئی اس نرمی سے استقادہ کرنے والی کئی خواتین کے کیسز کی عوامی سطح پر تشہیر کی گئی اور ان پر 24 ہفتوں یا اس سے زیادہ کے عرصے پر محیط اپنے حمل کو غیر قانرنی طور پر گرانے کے لیے گولیاں حاصل کرنے اور ان کا استعمال کرنے کے جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان پر مقدمہ چلایا گیا۔

اسقاط حمل کے مخالف گروپ اس قانون میں نرمی کی مخالفت کا استدلال یہ دیتے ہیں کہ اس سے حمل کے کسی بھی مرحلے پر خواتین کے لیے اسقاط حمل کا راستہ کھل جائے گا۔

''سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف انبورن چلڈرن‘‘ جو خود کو برطانیہ کا سب سے بڑا ''پرو لائف‘‘ گروپ قرار دیتا ہے، کی پبلک پالیسی میجینر الیتھیا ولیمز کے بقول،''اس طرح نازائیدہ بچوں کے لیے تحفظ کی ہر گنجائش چھین لی جائے گی اور خواتین کو ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘

ادارت: عاطف بلوچ

متعلقہ عنوان :