سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں کی سماعت 23جون تک ملتوی کر دی

جمعہ 20 جون 2025 21:49

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 جون2025ء) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں کی سماعت 23جون تک ملتوی کردی۔سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں کی سماعت جمعہ کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بینچ نے کی۔ کنول شوزب کی نمائندگی کرتے ہوئے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دئیے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کا استعمال عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کے تحفظ میں کیا جا سکتا ہے اور جب کوئی سنگین صورتحال ہو تو سپریم کورٹ کو وہ سب کچھ کرنا چاہیے جو ضروری ہو، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئین کی خلاف ورزی ہو اور کوئی مخصوص آرٹیکل نہ ہو تو سپریم کورٹ کو ایکٹو ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 199 کو 187 کے ساتھ ملا کر نہیں پڑھا جا سکتا کیونکہ سپریم کورٹ کو 199 جیسے اختیارات حاصل نہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آئینی اختیارات حاصل ہیں جو وہ کہیں بھی استعمال کر سکتی ہے۔ جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کیا آئین یا قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو سلمان راجہ نے کہا کہ نہیں، آزاد امیدواروں کو تین دن کے بجائے پندرہ روز میں پارٹی میں شمولیت کا حق دیا گیا کیونکہ قانون میں اور کوئی حل موجود نہیں تھا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے پوچھا کہ کیا مکمل انصاف کے اختیار کیلئے آرٹیکل 184(3) ضروری ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کسی بھی کیس میں مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر سکتی ہے اور یہی اختیار 184(3) میں شامل ہے، انہوں نے بتایا کہ گیارہ میں سے تمام ججز اس بات پر متفق تھے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں، اگرچہ تعداد پر اختلاف رہا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مخصوص نشستوں میں غیر مسلم اور عام پبلک کا ذکر ہے، جس پر سلمان راجہ نے کہا کہ بالکل، عام پبلک کی بھی اہمیت ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا ووٹ کا حق پیدائش سے ملتا ہے یا 18 سال کی عمر میں؟ جس پر سلمان راجہ نے وضاحت کی کہ یہ حق پیدائش سے ملتا ہے تاہم قانون اسے ریگولیٹ کرتا ہے اور اگر قانون ساز چاہیں تو ووٹ کا حق 18 سال کے بجائے 16 سال پر بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے پوچھا کہ کیا مخصوص نشستیں لینا کسی جماعت کا بنیادی حق ہے؟ تو وکیل نے کہا کہ عوام جب ووٹ کرتے ہیں تو مخصوص نشستیں بھی ان کی ہوتی ہیں اور یہ سیاسی جماعتوں کا بنیادی حق ہے، تاہم اس حق کو قانون سے ریگولیٹ کیا گیا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے اصغر خان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں خود اس عدالت میں موجود تھا، ایک طرف اسلم بیگ اور دوسری طرف اصغر خان تھے، دونوں نے اعترافی بیان دیا تھا کہ انہوں نے الیکشن میں مداخلت کی، کہا گیا کہ یہ سب قومی مفاد میں کیا گیا، جس پر جسٹس مندوخیل نے تبصرہ کیا کہ ہم تو فیصلے کرتے ہیں، سیاستدان عمل کرتے ہیں یا نہیں، اور کسی نہ کسی دور میں کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت بینیفشری رہی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ کیا مخصوص نشستوں کے فیصلے میں آئین بدلا گیا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، فیصلے میں نہ کسی کو پی ٹی آئی جوائن کرنے کا کہا گیا اور نہ ہی تین دن کی مدت کو پندرہ دن میں بدلا گیا، بلکہ فیصلے میں صرف یہ کہا گیا کہ یہ امیدوار 8 فروری سے ہی پی ٹی آئی سے وابستہ تھے اور صرف آدھے امیدواروں سے کنفرمیشن مانگی گئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف مخالف فریق کا موقف ہے، حقیقت نہیں، عدالت کو صرف دلائل نہیں بلکہ اصل حقیقت دیکھنی چاہیے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ کیا الیکشن سے پہلے آپ لوگ میٹنگ کرتے تھے یا ہر کسی کو اپنی مرضی تھی؟ جس پر سلمان راجہ نے کہا کہ ہم میٹنگز کرتے تھے ۔ آخر میں سلمان اکرم راجہ نے عدالت سے کہا کہ وہ مزید دو عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینا چاہتے ہیں اور ان کے نوٹس تیار ہیں، دلائل کیلئے مزید بس آدھا گھنٹہ درکار ہوگا، جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 23 جون تک ملتوی کر دی۔