Live Updates

جنگوں میں پھنسے بچوں کو حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا، یو این

یو این جمعرات 26 جون 2025 02:00

جنگوں میں پھنسے بچوں کو حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا، یو این

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 جون 2025ء) شام کے شہر ادلب سے تعلق رکھنے والی صِلہ جب تین سال کی عمر میں تھیں تو ایک رات وہ اپنے گھر کے قریب میزائل گرنے کے دھماکوں سے جاگ اٹھیں۔ ان کے خاندان کو تحفظ کی خاطر اپنا گھر چھوڑنا پڑا اور وہ لوگ 14 سال تک دربدر رہے۔

صِلہ کی عمر اب 17 برس ہے جنہوں نے آج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شام کی طویل خانہ جنگی کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بچپن میں بے گھری کی تکالیف کے اثرات اب بھی جھیل رہی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے خود کو جنگوں میں بچوں کے تحفظ کے کام سے وابستہ کر لیا ہے۔

Tweet URL

ان کا کہنا تھا کہ 2011 میں جب انہیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا تو تب سے ان کی زندگی میں سکون کا لمحہ نہیں آیا۔

(جاری ہے)

انہیں جہازوں جیسی آوازوں، تاریکی اور اکثر خاموشی سے بھی خوف آتا ہے۔

سلامتی کونسل کا یہ اجلاس بچوں اور مسلح تنازعات کے موضوع پر سیکرٹری جنرل کی تازہ ترین رپورٹ کے مندرجات پر بات چیت کے لیے بلایا گیا تھا۔

عالمی برادری کی ناکامی

اس رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال مسلح تنازعات میں بچوں کے حقوق کی پامالی کے واقعات میں 25 فیصد اضافہ دیکھا گیا جو گزشتہ 20 سال میں سب سے بڑی تعداد ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) میں بچوں کے تحفظ سے متعلق شعبے کی ڈائریکٹر شیما سین گپتا نے کہا ہے کہ رپورٹ کے مطابق، دنیا بچوں کو جنگ کی ہولناکیوں سے تحفظ دینے میں ناکام ہے۔

ہر ملک میں بچوں کے حقوق کی پامالی کا ہر واقعہ ایک اخلاقی ناکامی ہے۔ دنیا کو اس صورتحال میں تبدیلی لانے کے لیے ہنگامی بنیاد پر اقدامات کرنا ہوں گے۔

چھینی گئی زندگی، ٹوٹے خواب

سلامتی کونسل کو پیش کی جانے والی یہ رپورٹ ہر سال دوران جنگ بچوں کے حقوق کی سنگین پامالیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے مندرجات اقوام متحدہ کے اداروں کی تصدیق شدہ معلومات پر مشتمل ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایسے واقعات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال جنگوں کے دوران بچوں کے حقوق کی 41,370 سنگین خلاف ورزیاں ہوئی جن میں انہیں ہلاک و زخمی کیا جانا، ان کے ساتھ جنسی زیادتی، اغوا اور بچوں کے سکولوں اور ہسپتالوں پر حملے شامل ہیں۔

مسلح تنازعات میں بچوں کی صورتحال پر سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ ورجینیا گامبا نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ ان حملوں کا نشانہ بننے والے ہر بچہ چھینی ہوئی زندگی، ٹوٹے خوابوں، نامعقول تشدد اور طویل تنازعات کی داستان ہے۔ اگرچہ بچوں کے حقوق کی بہت سے پامالیاں دوران جنگ اور شہری علاقوں پر حملوں میں ہوتی ہیں لیکن جنگ ختم ہونے کے بعد بھی ایسے واقعات جاری رہتے ہیں۔

بارودی سرنگوں اور اَن پھٹے گولہ بارود سے بچوں کو ہونے والا نقصان اس کی بڑی مثال ہے۔

شیما سین گپتا نے کہا کہ کھیتوں، سکولوں کے احاطوں یا راستوں پر پڑا بارود گویا موت کی سزا ہے۔ ایسا مواد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے پر بھی موجود ہوتا ہے جس سے بچوں کی طبی سہولیات اور تعلیم تک رسائی متاثر ہوتی ہے۔

UN Photo/Evan Schneider
یونیسف میں بچوں کے تحفظ اور مہاجرت کی ڈائریکٹر سیما سین گپتا سلامتی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کر رہی ہیں۔

عمر بھر کے زخم

ورجینیا گامبا نے کہا کہ مسلح تنازعات کے دوران زخمی ہونے والے بچے ان واقعات کے اثرات سے عمر بھر نکل نہیں پاتے۔ اگر وہ زخمی نہ بھی ہوئے ہوں تو تب بھی ایسے واقعات کے منفی اثرات ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنگ کے جسمانی اور نفسیاتی زخم ان بچوں کے خاندانوں، معاشروں اور ان کے بنیادی تانے بانے کو بھی بری طرح متاثر کرتے ہیں۔

اسی لیے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور اس کے شراکت داروں نے دوران جنگ حقوق کی سنگین پامالیوں سے متاثرہ بچوں کے معاشرے میں انضمام نو اور انہیں نفسیاتی مدد دینے کے لیے کام کیا ہے۔

'بچے ضمنی نقصان نہیں'

ورجینیا گامبا نے اس رپورٹ میں بیان کردہ پریشان کن رجحانات پر قابو پانے کے لیے عالمی برادری پر ہنگامی اقدامات کے لیے زور دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دنیا اس تاریک دور کی جانب واپس نہیں جہاں سکتی جہاں بچوں کو نظرانداز کر دیا جاتا تھا اور جنگوں میں ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ امدادی وسائل میں آنے والی حالیہ کمی کے باعث بچوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے واقعات کی تفصیل جمع کرنے اور ان کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کے کام میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔

شیما سین گپتا کا کہنا تھا کہ عالمی برادری اس صورتحال کو ایک نیا معمول بننے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ جنگوں میں بچوں کے نقصان کو 'ضمنی نقصان' نہیں سمجھنا چاہیے۔

امید کی کرن

رپورٹ میں جہاں اس مسئلے کی سنگینی کا تذکرہ ہے وہیں امید کی کرن بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر شام کی فوج نے ایک لائحہ عمل پر دستخط کیے جو بچوں کی جنگی مقاصد کے لیے بھرتی اور انہیں ہلاک و زخمی کیے جانے کی ممانعت کرتا ہے۔

صِلہ اس امید کا اظہار کرتی ہیں کہ یہ حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا کرنے والی آخری نسل ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس نسل سے تعلق رکھتی ہیں جو جنگ میں جسمانی طور پر تو محفوظ رہی لیکن اس کے دل اب بھی خوف میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ بے گھری کو واپسی، ملبے کو گھر اور جنگ کو زندگی سے تبدیل کرے۔

Live ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات