جاپان: نو افراد کے 'ٹوئٹر قاتل' کو موت کی سزا دے دی گئی

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 27 جون 2025 11:40

جاپان: نو افراد کے 'ٹوئٹر قاتل' کو موت کی سزا دے دی گئی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جون 2025ء) جاپان میں سن 2017 میں نو افراد کو قتل کرنے والے 30 سالہ قاتل تکاہیرو شیراشی کو موت کی سزا دے دی گئی ہے۔ اس سلسلہ وار قتل کے سبب ملک میں ہنگامہ مچ گیا تھا اور شیراشی کو اس وقت "ٹوئٹر کلر" کا نام دیا گیا تھا۔

متعدد قتل کے واقعات کے بعد ملک میں یہ بحث تیز ہو گئی تھی کہ خودکشی سے متعلق آن لائن تبادلہ خیال آخر کیسے کیا جاتا ہے۔

جاپان: سزائے موت کے تین قیدیوں کو پھانسی دے دی گئی

پھانسی سے پہلے پیشگی اطلاع نہیں

موت کی سزا پر عمل جمعہ کے روز ٹوکیو کے حراستی مرکز میں سخت رازداری کے تحت ہوا اور پھانسی مکمل ہونے تک اس بارے میں کسی بھی طرح کی معلومات ظاہر نہیں کی گئیں۔

جاپان کے وزیر انصاف کیسوکے سوزوکی نے شیراشی کو پھانسی دینے کی اجازت دی تھی، جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ محتاط غور و فکر کے بعد کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مجرم کے جرائم "انتہائی خود غرض" مقصد پر مبنی تھی، جس نے "معاشرے کو شدید صدمے سے دوچار کیا اور بدامنی کا باعث بھی بنا"، اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا۔

جاپانی یاکوزا مافیا باس کو سزائے موت: ’جج صاحب، آپ پچھتائیں گے‘

شیراشی اس وقت 30 برس کے تھے، جو اپنے شکار کو پہلے اپنے اپارٹمنٹ میں لے جاتے، پھر ان گلا دبا کر ہلاک کرتے اور بعد میں جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے تھے۔

ان کے بیشتر متاثرین میں سے 15 برس سے لے کر 26 برس کے درمیان کی نوجوان خواتین تھیں۔

یہ ہلاکتیں اکتوبر 2017 میں اس وقت سامنے آئیں، جب پولیس کو متاثرین میں سے ایک کی تلاش کے دوران ٹوکیو کے قریب جاپانی شہر زاما میں لاش کے بعض اعضاء ملے تھے۔

ٹوئٹر پر دوستی اور ملاقات کے بعد قتل

شیراشی نے بعد میں ایسے نو افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا، جو خودکشی کا رجحان رکھتے تھے، اور انکشاف کیا کہ ان افراد سے ان کی واقفیت سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر ہوئی تھی، جو اب ایکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق ٹوئٹر پر دوستی کے بعد انہوں نے ایسے افراد کو یہ بھی بتایا کہ وہ ان کی مرنے میں کیسے مدد کر سکتے ہیں اور بعض صورتوں میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ ان کے ساتھ خود کو بھی مار سکتے ہیں۔

عالمی سطح پر سزائے موت کے رجحان میں کمی

ان کے ٹویٹر پروفائل میں یہ الفاظ درج تھے: "میں ان لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں، جو واقعی درد میں مبتلا ہیں۔

براہ کرم مجھے کسی بھی وقت ڈی ایم (براہ راست میسج ) کریں۔"

جب پولیس افسران نے ان کے فلیٹ کا دورہ کیا، تو وہاں موجود کولر اور ٹول بکس سے نو کٹی ہوئی لاشیں ملیں، جسے مقامی میڈیا نے "خوفناکیوں کا گھر" قرار دیا تھا۔

استغاثہ نے شیراشی کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ان کے وکلاء نے "رضامندی سے قتل" کے لیے کم سزا دینے کی دلیل دی۔

ان کے وکلا نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے متاثرین نے انہیں قتل کرنے کی اجازت دی تھی۔

سزائے موت: آخر کب تک؟

مدعاعلیہ کے وکلاء نے ان کی ذہنی حالت کا جائزہ لینے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ تاہم شیراشی نے بعد میں اپنی ہی دفاعی ٹیم کے موقف سے اختلاف کیا اور کہا کہ اس نے متاثرین کی رضامندی کے بغیر قتل کیا۔

دسمبر 2020 میں جب انہیں سزائے موت سنائی گئی، تو سینکڑوں لوگ اس فیصلے کی سماعت کے لیے عدالت کے باہر جمع ہوئے تھے۔

قتل کے ان واقعات کے بعد ٹوئٹر نے بھی اپنی پالیسی میں بعض تبدیلیوں کا اعلان کرتے ہوئے اپنے قوانین میں ترمیم کی اور کہا کہ صارفین کو "خودکشی یا خود کو نقصان پہنچانے کی ترغیب یا حوصلہ افزائی کرنے جیسے عمل سے باز رہنے کی ضرورت ہے۔"

جاپان میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کو پھانسی خفیہ طور پر دی جاتی ہے اور موت کی سزا پر صبح سویرے عمل ہونے تک بھی ان کی قسمت کے بارے میں انہیں نہیں بتایا جاتا ہے۔

جاپان کی سب سے حالیہ پھانسی جولائی 2022 میں ایک ایسے شخص کو دی گئی تھی، جس نے 2018 میں ٹوکیو کے ایک پرہجوم شاپنگ ڈسٹرکٹ اکیہابارا میں گاڑی کے حادثے اور چاقو کے حملے سے سات افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

ادارت: جاوید اختر