اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اگست 2025ء) ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جعلی سائنسی تحقیق میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ طبی تحقیق کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے۔
ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ایسے نیٹ ورکس جعلی تحقیق شائع کرنے کے لیے آپس میں مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ تحقیق پی این اے ایس نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے، جس کے لیے 70,000 جرائد میں شائع ہونے والے پانچ ملین سے زیادہ سائنسی مضامین کا تجزیہ کر کے یہ نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔
امریکہ میں نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں سماجی سائنس داں اور اس تحقیق کے سرکردہ مصنف ریس رچرڈسن نے کہا، "یہاں ایڈیٹرز کے گروہ ہیں جو کم معیار کے مضامین کو بڑے پیمانے پر شائع کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔"
اس تحقیق نے سائنسی جریدے کے ایڈیٹرز کے نیٹ ورکس کے ایسے شواہد کو بے نقاب کیا ہے، جو کثرت سے ایسی تحقیق شائع کرتے ہیں جس میں دیانت داری کے مسائل کا سامنا ہوتا اور بہت سے "دلال" دھوکہ دینے والے ایسے مصنفین کو ان ایڈیٹر نیٹ ورکس سے جوڑتے ہیں۔
(جاری ہے)
جرمنی کی فری یونیورسٹی برلن کی ایک سماجی سائنسدان اینا ابالکینا، جو اس تحقیق میں شامل تھیں، نے کہا اس قسم کی دھوکہ دہی سے سائنس پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی جانبداری منظم اور میٹا کے تجزیہ پر مبنی ہے۔ اس سے علاج میں تاخیر ہونے کے ساتھ ہی نئی تحقیق میں بھی تاخیر ہوتی ہے۔"
سائنسی فراڈ کا مسئلہ بڑھ رہا ہے
نئی سائنسی تحقیقات تحقیقی جرائد میں تحقیقی مقالوں کے طور پر شائع ہوتی ہیں۔
دسیوں ہزار مختلف تحقیقی جرائد بھی ہیں اور ہر ایک تحقیق کے مختلف موضوعات کو شائع کرتا ہے اور یہ سائنسی اثرات کی مختلف سطحوں کے ساتھ ہوتا ہے۔یہ جرائد محققین کے لیے اپنے نتائج، نظریات، ساتھیوں اور وسیع تر عوام کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے پلیٹ فارم ہیں۔
رچرڈسن کہتے ہیں، "تاریخی طور پر، سائنسی (اشاعت) انٹرپرائز ترقی کے لیے ایک انجن رہا ہے۔
اس نے ہمیں ویکسین، اینٹی بائیوٹکس، انٹرنیٹ، جراثیم سے پاک سرجری ۔۔۔ ہر وہ چیز فراہم کی ہے جو اب ہمارے لیے زندگی کو آرام دہ بناتی ہے۔"لیکن جعلی تحقیق بڑھ رہی ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق سات میں سے ایک تحقیقی اشاعت میں ڈیٹا جعلی ہوتا ہے اور مصنوعی ذہانت اس تحقیقی بدانتظامی کو بھی ہوا دے رہی ہے۔
دھوکہ دہی پر مبنی مطالعات میں من گھڑت ڈیٹا، غیر تصدیق شدہ نتائج، چوری شدہ تحقیق یا ہیرا پھیری والی تصاویر بھی شامل ہیں۔
رچرڈسن نے کہا کہ "آپ ہزاروں مضامین کی وسیع تصویری نقل سے اس نیٹ ورکس کا نقشہ بنا سکتے ہیں۔"
جعلی سائنسی تحقیق اعتماد کو نقصان پہنچاتی ہے
جعلی یا ناقص معیار کی تحقیق کو عام طور پر جرنل ایڈیٹرز یا ایسے ہم مرتبہ جائزہ لینے والوں کے ذریعے پکڑا جاتا ہے، لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایسے برے عناصر ان گروپس کے ساتھ مل کر اشاعت کے لیے تیزی سے اپنا راستہ بنا رہے ہیں۔
سائنسی دھوکہ دہی کا پردہ فاش ہونے کے بھی کئی اہم واقعات سامنے آئے ہیں۔
کووڈ اینس کی وبا کے دوران، کووڈ انفیکشن کے علاج کے لیے ہائیڈروکسی کلوروکوئن کی خوبیوں پر سائنسی اور سیاسی فیصلے کرنے کے لیے جعلی تحقیق کا استعمال کیا گیا۔ ماہرین نے اس مسئلے کو 'سیلف پروموشن جرنلز' سے جوڑ دیا، جہاں شائع کرنے والے بیشتر مصنفین اسی جرائد کے ایڈیٹر ہوتے ہیں جس میں وہ اپنی تحقیق شائع کرتے ہیں۔
تاہم دھوکہ دہی پر مبنی ایسا ایک مطالعہ یا کوئی تحقیق دیرپا مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، محققین کو الزائمر کی بیماری سے متعلق ایک تاریخی مطالعے میں تصویری ہیرا پھیری کے ثبوت ملے۔ آخر کار یہ مقالہ واپس لے لیا گیا اور سرکردہ سائنسدان نے استعفیٰ بھی دیا۔
تاہم ابالکینا کا کہنا ہے کہ اس خراب تحقیق پر اربوں ڈالر کی فنڈنگ اور سالوں کی تحقیق پہلے ہی صرف کی جا چکی تھی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "(یہ) بات ناقابل تصور ہے کہ صرف ایک ایسا کاغذ کیا کر سکتا ہے۔"سائنس میں کرپشن کو کیسے ختم کیا جائے؟
امریکہ میں نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی آف الینوائے کے لوئس امرال اس تحقیق کے سینیئر مصنف ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ "شاید سب سے زیادہ افسردہ کرنے والا پروجیکٹ تھا جس میں میں بھی شامل رہا ہوں۔
"امرال نے کہا، "دوسروں کو دھوکہ دیتے اور دیگر افراد گمراہ کرنے میں مصروف دیکھنا تکلیف دہ بات ہے۔ لیکن اگر آپ کو یقین ہے کہ سائنس انسانیت کے لیے مفید اور اہم ہے، تو آپ کو اس کے لیے لڑنا پڑے گا۔"
سائنسی پبلشنگ گروپس بھی اس مسئلے سے آگاہ ہیں اور جعلی تحقیق کی نشاندہی کرنے اور اسے واپس لینے کے لیے نئے طریقے بنانے پر کام کر رہے ہیں۔
ایک بڑے پبلشر، اسپرنگر نیچر نے 2024 میں اپنی اشاعتوں سے 2,923 مضامین کو واپس لے لیا۔لیکن ان جعلی دستاویزات کو واپس لینے کا مطلب یہ ہے کہ خراب سائنس پہلے ہی اشاعت کے لیے تیار ہو چکی ہے۔
ابالکینا اور رچرڈسن جیسے ماہرین کا کہنا ہے کہ مسائل بالآخر اس بات سے آتے ہیں کہ سائنسی تحقیق کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔ سائنسی ملازمتیں اور فنڈنگ سائنسی اشاعت پر منحصر ہے۔
رچرڈسن نے کہا، "جہاں آپ کو وسائل کی (کمی) کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی آپ پر سائنسی (اشاعتوں) کو شائع کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے، تو آپ کے پاس حقیقت میں دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں: اب آپ یا تو سائنسی فریب سے کام لیتے ہیں، یا پھر سائنس پر کام ترک کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں دسیوں ہزار سائنسدان مبتلا ہیں۔"
اسی لیے رچرڈسن نے کہا کہ فریب پر مبنی ایسی اشاعتوں سے لڑنے کا بہترین حل یہ ہے کہ اشاعتوں کی تعداد اور اس طرح کے حوالہ جات جیسے تحقیقی تشخیص کے تمام میٹرکس کو ختم کیا جائے۔
ص ز/ ج ا (ایجیئس میتھیو وارڈ)