نظرثانی میں کوئی غلطی ہو تو اسے درست کیا جاتا ہے، جس جج نے اگرغلطی کی ہوگی تو وہی اسے درست کرے گا

کوئی اور جج ساتھی ججز کا دیا گیا فیصلہ نظرثانی میں نہیں بدل سکتا، مخصوص نشستوں کیس میں آئینی بنچ سے متعلق جسٹس جمال مندوخیل کے اہم ریمارکس

muhammad ali محمد علی ہفتہ 28 جون 2025 00:10

نظرثانی میں کوئی غلطی ہو تو اسے درست کیا جاتا ہے، جس جج نے اگرغلطی کی ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 27 جون2025ء) جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ نظرثانی میں کوئی غلطی ہو تو اسے درست کیا جاتا ہے، جس جج نے اگرغلطی کی ہوگی تو وہی اسے درست کرے گا۔ تفصیلات کے مطابق مخصوص نشستوں کیس میں آئینی بنچ سے متعلق جسٹس جمال مندوخیل کے اہم ریمارکس سامنے آئے ہیں۔ کیس کی سماعت کے اختتام پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ "اپیل اور نظرثانی میں فرق ہوتا ہے، نظرثانی میں کوئی غلطی ہو تو اسے درست کیا جاتا ہے، میں نے اگرغلطی کی ہوگی تو میں ہی اسے درست کروں گا، میں کہہ سکتا ہوں ہاں یہ حقائق پہلے میرے سامنے نہیں تھے غلطی ہوگئی لیکن میں اپنے ساتھی ججز کا دیا گیا فیصلہ نظرثانی میں نہیں بدل سکتا، دوسرے ججز کا فیصلہ مجھے پسند نہ بھی ہو تو نظرثانی میں ساتھی جج کا فیصلہ میں نہیں بدل نہیں سکتا۔

(جاری ہے)

" واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے تحریک انصاف کو تمام مخصوص نشستوں سے محروم کر کے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں حکمران جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے اس اہم مقدمے کی 17 سماعتیں کیں۔

بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔ جمعہ کے روز ہونے والی سماعت کے دوران، جب سینئر وکیل حامد خان، جو سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے تھے، نے بینچ کی تشکیل پر اعتراضات اٹھائے تو جسٹس صلاح الدین نے خود کو بینچ سے علیحدہ کر لیا۔

تاہم عدالت نے کارروائی جاری رکھی اور بعد ازاں مختصر فیصلہ سنایا۔ اکثریتی رائے سے، عدالت نے 12 جولائی 2024 کے سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دیا جس میں پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل کے ذریعے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں حاصل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ عدالت نے جولائی 2024 کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی کی درخواستیں منظور کر لیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کی کہ متعلقہ اراکین کی درخواستوں پر دوبارہ سماعت کی جائے۔ اکثریتی فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے تحریر کیا جس سے جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس عامر فاروق، اور جسٹس علی باقر نجفی نے اتفاق کیا۔