اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جون 2025ء) خیال کیا جاتا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی بڑھنے کی کئی وجوہات میں ایک بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے۔
برطانیہ کے رائل کالج آف فزیشنز نے ایک ہفتے پہلے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ برطانیہ میں فضائی آلودگی ہر ہفتے 500 افراد کی موت کا سبب بنتی ہے اور اس کی وجہ سے نیشنل ہیلتھ ٹرسٹ کو ایک سال میں 27 بلین پاؤنڈ کا بالواسطہ طور پر یا بلاواسطہ طور پر نقصان ہوتا ہے۔
سانس کی بیماری کی نئی وبا، طبی سہولیات میں اضافے کا چینی فیصلہ
خیال کیا جاتا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی بڑھنے کی کئی وجوہات میں ایک بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے۔
دمے کے مریضوں کی تعداد
خیال کیا جاتا ہے کہ برطانیہ میں دمے کے مریضوں کی تعداد 54 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔
(جاری ہے)
برطانوی دارالعوام کی سن دو ہزار اکیس کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ 185 افراد دمے کے حملے کے وجہ سے اسپتال میں داخل ہوئے۔
جب کہ دوہزار بیس اکیس میں اکتالیس ہزار ایک سو پچاس افراد دمے کی شکایت کے ساتھ اسپتال میں ہوئے۔بھارت: تنفس کے شدید انفیکش سے تین ہزار سے زائد اموات
اسی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ جنرل فزیشنز کے پاس آنے والے مریضوں میں چھ اشاریہ پانچ فیصد کو دمے سے متعلق دوائیں تجویز کی گئی تھیں۔
دمے کی وجہ سے انگلینڈ اور ویلز میں 2020 میں 1335 اموات رونما ہوئی تھیں، جن میں 61 فیصد افراد یا تو 80 برس کے تھے یا اس سے زیادہ ان کی عمر تھے۔
مریضوں کی پریشانی
اس صورتحال سے دمے میں مبتلا مریض پریشانی سے دوچار ہیں۔ برمنگم سے تعلق رکھنے والے شبیع احمد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''میں خود ایک ڈاکٹر ہوں اور یورولوجی کا ماہر ہوں۔ میں 22 سال سے یہاں مقیم ہوں لیکن گزشتہ دو سال میں یہاں پر فضائی آلودگی میں بہت اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے دمے کے مریضوں کے لیے بہت مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔
‘‘فضائی آلودگی سے پاکستانیوں کی اوسط عمر 2 سال کم ہو سکتی ہے، رپورٹ
شبیع احمد کے مطابق جو دوائیاں وہ دمے کے سیزن میں ایک دفعہ استعمال کرتے تھے۔ ''اب وہ تین گناہ ہو گئی ہیں۔‘‘
انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ آلودگی کے اس لیول کو کنٹرول کیا جائے۔ ورنہ مسائل مزید گمبھیر ہو جائیں گے۔
گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور آلودگی
ٹی سائیڈ یونیورسٹی مڈلز برا سے تعلق رکھنے والے ماہر چی ڈوزی او بی ابو مو کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد فضائی آلودگی کو بڑھانے کا ایک بڑا سبب ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کے علاوہ صنعتی اور کیمیائی پروسیسز کی وجہ سے بھی فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے جبکہ زراعت میں جراثیم کش ادویات اور مختلف کھادیں اور مائننگ سرگرمیاں بھی اس کا سبب ہیں۔"ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں حکومت صنعتوں کی بحالی کی بات کر رہی ہے۔ ''اور یقینا اس سے فضائی آلودگی میں مزید اضافہ ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحول دوست ٹیکنالوجی میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔‘‘لندن سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ سمز کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کو سنجیدگی سے ٹرانسپورٹ کو کنٹرول کرنا پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ پانچ لاکھ کاروں میں پانچ لاکھ افراد بیٹھ کر جائیں۔
اگر بڑی تعداد میں بسوں کو چلایا جائے یا ٹرین کے نیٹ ورک میں توسیع کی جائے تو تیل کی استعمال کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔ جس سے یقینا فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘ڈیوڈ سم کے مطابق اس کے علاوہ حکومت کو اس بات کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے کہ کم فاصلے کے لیے لوگ زیادہ سے زیادہ سائیکل استعمال کریں یا پیدل چلیں۔ ''بد قسمتی یہ ہے کہ لندن میں تو سائیکلنگ کی کسی حد تک حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن کچھ دوسرے شہروں میں الیکٹرک بائکس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا رہی۔
‘‘بجٹ کی کمی
مڈلز برا سے تعلق رکھنے والے ایک سابق کونسلر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس مسئلے میں مزید شدت آئے گی کیونکہ حکومت مسلسل کونسل کے بجٹ میں کمی کر رہی ہے۔‘‘
اس سابق کونسلر نے اس بات پہ حیرت کا اظہار کیا کہ کچھ بڑے انڈسٹریل یونٹس کے بند ہونے کے باوجود بھی آلودگی کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
''یقینا بڑھتی ہوئی ٹریفک اور کاروں کی روانی اس کا ایک بڑا سبب ہے، جس کے لیے کونسل کے بجٹ کو بھی بڑھایا جانا چاہیے اور نئے قوانین بھی بنائے جانے چاہیے۔‘‘حکومت کیا کررہی ہے؟
لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ فضائی آلودگی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق کونسلر مشتاق لاشاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گرین ٹیکنالوجی کا فروغ لیبر پارٹی کی پالیسیز میں سے ایک اہم پالیسی ہے۔
لندن اور دوسرے بڑے شہروں کے میئرز ماحول دوست پالیسی پر عمل درآمد کرا رہے ہیں۔"مشتاق لاشاری کے مطابق اس کے علاوہ جس جس کونسل میں بھی لیبر پارٹی حکومت میں ہیں وہاں وہ سائیکلنگ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزیوں کا سختی سے نوٹس لے رہے ہے۔‘‘
عبدالستار