Live Updates

دفاعی بجٹ میں اضافہ، اخراجات بھی تو کم ہو سکتے تھے

DW ڈی ڈبلیو پیر 30 جون 2025 18:40

دفاعی بجٹ میں اضافہ، اخراجات بھی تو کم ہو سکتے تھے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جون 2025ء) ایک ایسے وقت میں جب حکومت نے دفاعی بجٹ میں بیس فیصد اضافہ کرتے ہوئے اسے گزشتہ سال کے مقابلے میں 400 ارب روپے بڑھا دیا ہے، بعض حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ فوج اپنے غیر جنگی اخراجات میں کمی کر کے قومی خزانے پر بوجھ کم کر سکتی ہے۔

یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کے بجٹ کا سب سے بڑا خرچ قرضوں پر سود کی ادائیگی ہے اور تقریباً 17 ہزار ارب روپے کے بجٹ میں سے آدھی رقم یعنی 8200 ارب روپے صرف سود کی ادائیگی پر خرچ ہوتی ہے۔

اس کے بعد سب سے بڑا خرچ دفاعی بجٹ ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسے مالی بحران کا شکار ملک کو غیر ترقیاتی اخراجات میں جہاں تک ممکن ہو، فوری طور پر کمی کرنی چاہیے۔

پاکستان کا دفاعی بجٹ جو گزشتہ سال 2100 ارب روپے تھا، حالیہ بجٹ میں بڑھا کر تقریباً 2550 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ماہرین، جو مسلح افواج کے نظام اور اخراجات سے واقف ہیں، کا کہنا ہے کہ فوج کے کچھ غیر جنگی اخراجات میں کمی کی گنجائش موجود ہے اور اسے اس پر توجہ دینی چاہیے۔

دفاعی اخراجات میں کیا شامل ہے؟

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کے مطابق دفاعی اخراجات چار حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں، تنخواہ و الاؤنسز، آپریشنز، ایڈمنسٹریشن اور تربیت۔ تاہم، ان میں سے ہر شعبے پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے، اس کی تفصیلات کے بارے مکمل تفصیلات کا ابھی اندازا نہیں ہے۔

ان کے مطابق تنخواہوں و الاؤنسز اور تربیت جیسے اخراجات میں کوئی کمی ممکن نہیں کیونکہ اگر فوج کے افسران اور جوانوں کی تنخواہ پر کٹ لگایا جائے تو اس طرح تو کوئی فوج کا حصہ ہی نہیں بننا چاہے گا۔

اس کے علاوہ دفاعی سامان خریدنے پر کافی پیسہ لگتا ہے جو کہ آپریشنز کا حصہ ہے لیکن آپریشنز کا مطلب صرف اور صرف دفاعی سامان نہیں ہے۔

اخراجات کم کہاں ہو سکتے ہیں؟

نعیم لودھی کہتے ہیں کہ دو شعبوں یعنی آپریشنز اور ایڈمنسٹریشن کے اخراجات میں کمی کی گنجائش موجود ہے، البتہ اس میں کتنی کمی کی جا سکتی ہے، اس کے لیے باقاعدہ مطالعہ اور تجزیہ درکار ہے۔

یہ جاننا بھی اہم ہے کہ پاکستان آرمی کا ملک بھر میں ایک وسیع عماراتی ڈھانچا موجود ہے، جو نہ صرف جنگی مقاصد بلکہ افسران کی سہولت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تقریباً ہر سیاحتی مقام پر، چاہے وہ دور دراز علاقوں میں ہو یا شہروں میں، فوج کے ریسٹ ہاؤسز موجود ہیں جہاں افسران اورتفریح کی غرض سے آئے، ان کے خاندانوں کو رہائش فراہم کی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے بڑی تعداد میں عملہ بھی تعینات ہوتا ہے۔

نعیم لودھی کا کہنا ہے، "ان عمارتوں پر ہونے والے اخراجات میں یقیناً کمی کی جا سکتی ہے۔‘‘

ان کے مطابق ایک بڑا خرچہ راشن کا بھی ہے جو کہ ضروری تو ہے لیکن جنرل کیانی کے دور میں اس خرچے میں بہت اضافہ کیا گیا تھا جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ نعیم لودھی کہتے ہیں کہ باقاعدہ ایک ریسرچ کر کے یہ والا خرچ بھی کم کیا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ لگژری گاڑیوں کا بھی ایک خرچ ہے اس کو بھی کافی کم ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ، جو ایک دفاعی تجزیہ کار ہیں، کہتی ہیں، ''کوئی بھی سرکاری ادارہکرپشن سے پاک نہیں اور مسلح افواج کے ادارے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ کرپشن پر قابو پا کر بڑی رقم بچائی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے کافی محنت اور عزم درکار ہے۔‘‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سے غیر جنگی اخراجات ایسے ہیں جنہیں کم کیا جا سکتا ہے اور انہوں نے مہمان خانوں کے بڑے نیٹ ورک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان سہولیات پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی کمی کی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی تینوں مسلح افواج زمینی فوج، فضائیہ اور بحریہ کے درمیان مؤثر رابطہ کاری سے اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہے، کیونکہ اس سے جنگی وسائل پر دوہرے خرچ سے بچا جا سکتا ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کے درمیان رابطہ کاری پہلے ہی محدود ہے اور آرمی چیف کے فیلڈ مارشل بننے کے بعد یہ کوآرڈینیشن مزید کم ہو سکتی ہے، کیونکہ اب آرمی چیف فائیو سٹار جنرل ہیں جبکہ چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف فور اسٹار جنرل کے عہدے پر ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا، ''انٹر سروسز کلچر کو فروغ دینے اور مشترکہ منصوبہ بندی ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا عہدہ ایک طاقتور سیٹ ہوتا ہے، لیکن آرمی چیف کے فیلڈ مارشل بننے کے بعد ان کے دفتر کی حیثیت نسبتا کمزور ہو گئی ہے۔‘‘

Live بجٹ 26-2025ء سے متعلق تازہ ترین معلومات