اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جولائی 2025ء) دنیا بھر میں شدید گرمی کی لہریں صحت عامہ اور ملکی معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ درجہ حرارات میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے اور گرمی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے ویسے ویسے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری جانب کارکنوں کی کار کردگی اور کام کے اوقات میں واضح کمی آ رہی ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتوں کے لیے اس ''خاموش قاتل‘‘ کے خلاف مؤثر اقدامات ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
بھارت
دنیا میں سب سے زیادہ ایک اعشاریہ چار ارب کی آبادی والے ملک بھارت میں کم از کم نصف افرادی قوت کھلے آسمان تلے کام کرتی ہے اور صرف دس فیصد آبادی کو ائر کنڈیشنگ کی سہولت مہیا ہے۔
(جاری ہے)
ایسے میں اس جنوب ایشیائی ملک میںشدید گرمی انتہائی تکلیف دہ ہے۔
یہ ملکی معیشت اور انسانوں کی صحت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔نئ دہلی یونیورسٹی میں ماحولیاتی اقتصادیات کی شعبے سے منسلک پروفیسر پرنمیتا داس گپتا کہتے ہیں، ''بھارت میں گرمی کی لہریں بڑھ رہی ہیں اور نئے جغرافیائی خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور گرمی کی یہ لہر متوقع وقت سے پہلے ہی آ گئی ہے۔ پروفیسر گپتا نے متنبہ کرتے ہوئے کہا، ''ایسی گرمی کی لہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس (122 فارن ہائیٹ) سے تجاوز کر سکتا ہے۔
‘‘جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا ہے، پیداواری صلاحیت گر جاتی ہے۔ طبی جریدے دی لانسیٹ کے مطابق صرف 2023 ء کے دوران بھارت میں شدید گرمی کی وجہ سے 182 بلین ممکنہ لیبر کےگھنٹے ضائع ہوئے۔ 2030 ء تک بھارت تقریباﹰ 34 ملین کل وقتی ملازمتوں کے برابر کام کے اوقات کے ضیاع کا سامنا کر سکتا ہے۔
اس صورتحال سے زراعت اور تعمیرات کے شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے تاہم خطرات کا دائرہ کار اس سے ماورا بیرونی کام تک بڑھ سکتا ہے۔
گنجان آباد علاقوں میں گھروں میں تازہ ہوا کے گزر کے ناقص انتظام کے سبب ان گھروں سے گرمی یا حدت کے نکلنے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ جس سے کسی کے لیے بھی دن کے بلنددرجہ حرارت والے اوقات میں پیدا ہونے والے صحت کے مسائل سے نمٹنا آسان نہیں رہتا۔حکومتیں کیا کر رہی ہیں؟
شدید گرمی سے پیدا ہونے والے سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے حکومتوں نے کچھ ایکشن لینا شروع کیا ہے۔
کہیں کہیں مقامی حکام ایسے قوانین متعارف کرا رہی ہیں، جن کے تحت آجروں کو سایہ دار کام کی جگہیں، کام کے دوران وقفے اور پانی فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔کچھ آجر کھوئی ہوئی پیداواری صلاحیت کو بحال کرنے کے لیے آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔ پروفیسر داس گپتا کے بقول،''لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر معاملات میں، پیداواری صلاحیت گر جاتی ہے۔ 35 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت میں ایک کارکن اپنی کام کی معتدل صلاحیت تقریباً 50 فیصد کھو دیتا ہے۔‘‘ اس کو اگر ملکی معیشت کے اسکیل پر دیکھا جائے تو کارکنوں کے کام کرنے کی صلاحیت پورے ملک کی معیشت کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔
ادارت: شکور رحیم