اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جولائی 2025ء) جرمنی نے پیر کے روز بتایا کہ اس نے سن 2021 میں افغانستان میں سخت گیر اسلام پسند طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پہلی بار حکمران طالبان حکومت کے دو سفیروں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔
برلن کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو افغان تارکین وطن کی مزید ملک بدری کی سہولت فراہم کرنے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
جرمنی نے پناہ کی ناکام درخواستوں اور مجرمانہ سزاؤں کے بعد گزشتہ جمعے کے روز ہی 81 افغانوں کو ملک بدر کیا۔گزشتہ برس جرمنی کی جانب سے دوبارہ افغانوں کی ملک بدری شروع کرنے کے بعد سے یہ اپنی نوعیت کی ایسی دوسری پرواز تھی، جسے طالبان کے اقتدار میں واپسی اور کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کے بعد جرمنی نے روک دیا تھا۔
(جاری ہے)
طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم نہ کیا جائے گا، میرس
جرمن حکومت روس کو چھوڑ کر باقی عالمی برادری کی طرح ہی انسانی حقوق کے ریکارڈ اور خاص طور پر خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتی ہے۔
تاہم ملک بدری سے نمٹنے کے لیے برلن کے طالبان کے ساتھ "تکنیکی رابطے" ہیں، جس کی قطر نے سہولت فراہم کی ہے۔
جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قونصلر عملے کو ملک میں داخل ہونے اور کام کرنے کی اجازت دینے کے باوجود طالبان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
جرمن دفتر خارجہ کے مطابق فی الحال، جرمنی میں افغان سفارتی نمائندوں کی سربراہی ایسے اہلکار کر رہے ہیں، جنہیں 2021 میں طالبان کے قبضے سے پہلے تسلیم کیا گیا تھا۔
دفتر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ افغان مشنز میں عملے کی تعداد بہت کم ہے۔دفتر خارجہ نے کہا، "جرمن حکومت اس بات کو یقینی بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے کہ جرمنی میں افغان شہریوں کو مناسب قونصلر سپورٹ ملے، مثال کے طور پر پاسپورٹ کا اجراء وغیرہ اس میں شامل ہے۔"
جرمن روزنامہ فرینکفوٹر الگے مائن سائٹونگ کے مطابق طالبان کے ایلچی ہفتے کے آخر میں جرمنی پہنچے تھے اور وہ برلن میں افغان سفارت خانے اور بون میں افغان قونصل خانے میں کام کریں گے۔
ملک بدری پر اقوام متحدہ کی تنقید
سن 2021 میں جب طالبان نے ملک پر دوبارہ قبضہ کر لیا، تو جرمنی نے افغانستان میں ملک بدری روک دی تھی۔ تاہم ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے تارکین وطن مخالف بیان بازی کے عروج کے درمیان، چانسلر میرس کے قدامت پسند بلاک کی قیادت والی حکومت نے ملک بدری کو اپنے ایجنڈے میں سب سے اوپر رکھا ہے۔
میرس کے پیشرو اولاف شولس کی حکومت کے دور میں ملک بدری کا عمل پہلے ہی دوبارہ شروع ہو چکا تھا، جنہوں نے پناہ گزینوں پر ہونے والے پرتشدد حملوں کے نتیجے میں مسترد شدہ پناہ کے متلاشیوں اور مجرمانہ سزاؤں والے تارکین وطن کو ملک سے نکالنے کا عہد کیا تھا۔
تاہم افغان مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کی افغانستان واپسی پر اقوام متحدہ کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کی ترجمان روینہ شامداسانی نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو افغانستان واپس بھیجنا مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم افغانستان میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کو دیکھ رہے ہیں۔"
کابل میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے لیے کام کرنے والے عرفات جمال نے کہا کہ افغانستان کے لیے "غیر واپسی کی ایڈوائزری" ابھی بھی موجود ہے۔
ادارے نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ "زمین پر حالات ابھی واپسی کے لیے مناسب نہیں ہیں۔"انہوں نے کہا کہ "ہم ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ افغانوں کو زبردستی واپس نہ بھیجیں۔"
ادھر جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن کورنیلیس نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک بدری کی مزید پروازیں ہوں گی۔ انہوں نے کہا، "حکومت نے جرائم کے مرتکب افراد کو منظم طریقے سے بے دخل کرنے کا عہد کر رکھا ہے اور یہ کام صرف ایک پرواز سے پورا نہیں ہو گا۔"
ادارت: جاوید اختر