ایک ہزار یہودی علما کا اسرائیل پر غزہ میں بھوک کو جنگی ہتھیار بنانے کا الزام

اسرائیلی حکومت بڑے پیمانے پر انسانی امداد کو غزہ پہنچانے کی اجازت دے،ربیوں کا مطالبہ

پیر 28 جولائی 2025 16:38

تل ابیب(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 جولائی2025ء)دنیا بھر سے ایک ہزار یہودی علما نے اسرائیل پر غزہ میں بھوک کو جنگی ہتھیار بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں امداد پہنچانے کی اجازت دے۔فرانسیسی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق امریکا ، برطانیہ، یورپی یونین اور اسرائیل میں مقیم ربیوں اور یہودی علما نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے ہیں جس میں اعلان کیا گیا کہ یہودی قوم کو ایک سنگین اخلاقی بحران کا سامنا ہے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دنیا بھر کی طرف سے بھیجی امداد کو غزہ پہنچانے پر سخت پابندیاں، ضرورت مند شہری آبادی کو خوراک، پانی اور طبی سامان کی فراہمی روکنے کی پالیسی، یہودیت کی اقدار کے منافی ہے ۔

(جاری ہے)

ربیوں نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بڑے پیمانے پر انسانی امداد کو غزہ پہنچانے کی اجازت دے اور یرغمالیوں کی واپسی اور جنگ ختم کرنے کے لیے تمام ممکنہ طریقوں پر فوری طور پر کام کرے۔

برطانیہ میں مقیم ربی، جوناتھن وِٹنبرگ نے گزشتہ ہفتے جیوش کرانیکل کو بتایا کہ وہ نہ صرف اسرائیل بلکہ خود یہودیت کی اخلاقی ساکھ کے لییاسرائیلی حکومت سے اپیل کی مہم کی قیادت کر رہے ہیں ۔واضح رہے کہ اسرائیل نے غزہ میں امداد کی فراہمی کے لئے بعض اقدامات کا اعلان کیا ہے تاہم فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ فلپ لازارینی نے ان اقدامات کو "سموک اسکرینقرار دے کر مسترد کر دیا، اور اسرائیل پر ایسے اعلانات سے اپنی ساکھ بچانے کا الزام عائد کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل ان چھ ہزار امدادی ٹرکوں کا راستہ کھولے جو غزہ میں داخل ہونے کے منتظر ہیں۔فلپ لازارینی کے مطابق غزہ میں تقریبا 90 ہزار خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جو اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سیپیدا ہونے والا انسانی ساختہ قحط ہے۔