اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اگست 2025ء) امریکہ میں افریقی غلاموں سے 13 سے 14 گھنٹوں مسلسل کام کرایا جاتا تھا۔ ان پر تسلط قائم رکھنے کے لیے سخت سزائیں دی جاتی تھیں لیکن ان کے باوجود غلام فرار بھی ہوتے تھے اور بغاوتیں بھی کرتے تھے۔ اسی جدوجہد نے انہیں آخر کار غلامی سے بھی آزاد کرایا۔
غلامی کے پہلے مرحلے میں مذہبی اور سیاسی اداروں نے اسے جائز قرار دیا۔
ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا جرم تھا۔ ان کو مسیحی تو بنا لیا گیا مگر ان کے چرچ علیحدہ ہوتے تھے۔ غلامی کے خلاف کسی تحریک یا تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن تاریخ ایک جگہ رکی ہوئی نہیں رہتی۔ بدلتے ہوئے حالات میں غلامی کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔ لیکن جب امریکہ میں خانہ جنگی ہوئی (1861 سے 1865) تو اس نے غلامی کا خاتمہ کر کے انہیں آزادی دی۔(جاری ہے)
جنوبی امریکی ریاستوں میں غلاموں کی آزادی کو تسلیم نہ کیا گیا۔ کو کلوکس کلان (KKK) نامی سفید فام شدت پسند تنظیم کے ذریعے افریقیوں میں ڈر اور خوف کو پھیلایا گیا۔ اس کے بعد جم کرو قوانین لاگو کیے گئے تھے، جن میں مقصد جنوب کی ریاستوں میں نسلی بنیادوں میں انسانی فرق کو واضح کرنا تھا۔ سفید فام اور افریقیوں میں علیحدگی کے ذریعے سفید نسل کے لوگوں کو نسلی برتری کا احساس دلایا۔
افریقیوں کے لیے تعلیمی اداروں میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ افریقیوں کی رہائش گاہیں علیحدہ کر دی گئیں۔ ان کی روزی کے ذرائع محدود کر دیے گئے۔اس موضوع پر ایڈوارڈو بونیلا سلوا کی کتاب Racism (without) Racist قابل ذکر ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے افریقیوں کی جدوجہد کے مختلف مراحل کا جائزہ لیا ہے۔ غلامی سے آزادی کے بعد افریقی جو تب تک کھیتوں میں کام کرتے تھے، وہاں سے نکل کر شہروں میں آئے۔
خاص طور سے شمال کی ریاستوں میں صنعت ترقی کر رہی تھی۔ افریقیوں کی ایک بڑی تعداد نے شمالی ریاستوں کی فیکٹریوں میں کام کرنا شروع کیا۔ فیکٹری کی ملازمت کے دوران افریقیوں کے آپس میں رابطے شروع ہوئے۔ آپس میں بات چیت اور بحث و مباحثےکی وجہ سے ان میں سیاسی اور سماجی شعور پیدا ہوا۔ جب شمال کے سرمایہ داروں نے جنوب کی ریاستوں میں اپنی فیکٹریاں لگائیں تو وہاں انہیں سستے افریقی مزدور مل گئے۔ لہٰذا کاشتکاری سے انڈسٹری تک افریقی سیاسی طور پر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے لگے۔1960 کی دہائی میں افریقیوں پر جو نسلی پابندیاں تھی وہ ختم کر دی گئیں۔ اب وہ تعلیمی اداروں میں داخلے لے سکتے تھے۔ سفید فام کے ہوٹلوں اور دکانوں پر جا سکتے تھے۔ امریکہ کے معاشرے نے اگرچہ ان تبدیلیوں کو قبول تو کیا مگر بقول مصنف ان کے اندر جو Colorless یا چھپا ہوا تعصب تھا، وہ باقی رہا۔
اس کے لیے انہوں نے افریقیوں کے خلاف مختلف دلائل تلاش کیے۔ مثلاً انہوں نے Biological یا حیاتیاتی نظریہ دیا کہ وہ نسلی طور پر کم تر ہیں۔ کلچر کی بنیاد پر بھی انہیں پسماندہ کہا گیا اور یہ دلیل دی گئی کہ وہ نہ کوئی اخلاقی قدروں کے پابند ہیں اور نہ ان میں کوئی نظم و ضبط ہے۔ نہ ہی وہ محنت مشقت کے عادی ہیں۔ وہ مختلف جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، جس کی وجہ سے جیلوں میں سب سے زیادہ تعداد افریقیوں کی ہوتی ہے۔سفید فاموں کی جانب سے یہ دلیل بھی دی گئی کہ سیاہ فام افراد اپنی غربت اور مُفلسی کا سبب خود ہیں ورنہ امریکی سماج میں ترقی کے تمام موقع ہیں۔ افریقیوں کے خلاف یہ نظریہ سفید فام معاشرے نے تسلیم کر لیا۔ اُنہوں نے نہ تو اُن کی غلامی کی اذیتوں کو دیکھا اور نہ نسل پرستی کے بارے میں سوچا۔ لیکن افریقیوں نے اپنی تعلیمی ادارے بنائے انڈسٹری کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے کئی شعبوں میں مہارت حاصل کی جس کی وجہ سے اُن میں ایک متوسط طبقہ وجود میں آیا۔
ان میں اسپورٹس مین، موسیقار، فلمی اداکار، ادیب اور تعلیمی اداروں میں اساتذہ نے اپنی اہمیت کو تسلیم کرایا۔امریکہ میں 1965 میں سیاہ فام شہریوں کو ووٹ کا حق دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے انتخابات میں حصہ لینا شروع کیا۔ ان کی کامیابی یہ تھی کہ امریکہ کے کئی بڑے شہروں میں ان کے میئرز (Mayors) منتخب ہوئے۔ لیکن سفید فام سرمایہ داروں نے شہر کے مالی وسائل کو صنعتی ترقی کے لیے استعمال کیا اور Mayor کے اختیارات کو محدود رکھا۔
لیکن الیکشن میں حصہ لینے سے افریقوں کے نمائندے کانگریس اور سینیٹ میں بھی منتخب ہوئے۔ یہاں تک 2008 میں باراک اوباما پہلے سیاہ فام امریکی صدر منتخب ہوئے۔ مصنف نے اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے امریکی معاشرے میں افریقیوں کی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔مصنف کا تجزیہ یہ ہے کہ امریکہ کے سفید فام چاہے جس قدر خود کو لبرل اور ترقی یافتہ کہیں اور چاہے خود کو نسل پرستی سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔
مگر ان میں سے زیادہ تر کے اندر نسل پرستی چھپی ہوئی ہے اور جِلد کی رنگت کی بنیاد پر وہ افریقی شہریوں کو کم تر سمجھتے ہیں اور انہیں ترقی کے یکساں مواقع فراہم نہیں کرتے ہیں۔ افریقی شہریوں کے لیے مساوات کا درجہ حاصل کرنے کے لیے بہت وقت درکار ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔