محنت کشوں کے حقوق کی پاسداری ریاست کی ذمہ داری ہے،لیاقت علی ساہی

پیر 11 اگست 2025 19:35

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اگست2025ء)سیاسی و سماجی رہنما لیا قت علی ساہی نے محنت کشوں کے آئینی حقوق اور ریاست کی ذمہ داری کا جائزہ لیا جائے تو ریاست محنت کشوں کو آئینی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے میں بُری طرح ناکام ہو چکی ہے جبکہ ریاست کا نظام ملک کے دستور کے تابع ہے اس کا جازہ لینا ہوگا کہ ریاستی ادارے ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری دستور کی روشنی میں اپنا کردارادا یقینا نہیں کر رہے ، اس وقت ملک کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرکے ادارے دستور ِ پاکستان اور پارلیمنٹ کی سطح پر مرتب کئے گئے لیبر قوانین کو طاقت کے بل بوتے پر پاؤں تلے روندھ رہے ہیں ، وفاق کی سطح پر پارلیمنٹ نے ایمپلائمنٹ اسٹینڈنگ آرڈر 1968 منظور کرکے ایک لاء اداروں اور محنت کشوں کو فراہم کیا کہ کسی بھی ادارے میں مستقل پوسٹوں پر کنٹریکٹ پر اگر کوئی ملازم ملازمت پر رکھا جائے گا تو اسے نوے دن بعد مستقل کرنا لازم ہوگا اس تناظر میں ہم اگر اداروں کا جائزہ لیں تو سو فیصد ادارے خلاف ورزی کر رہے ہیں ایسی صورت میں آئی آر ای2012 کی سیکشن 29 کے تحت انسپکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اداروں کو انسپکشن کریں جہاں لیبر لاء کی خلاف ورزی کی نشاندھی ہو وہاں ان کے خلاف قانونی کاروائی کو آگے بڑھائے المیہ یہ ہے کہ اس پر این آئی آر سی وفاقی اور لیبر ڈیپارٹمنٹ صوبوں کی سطح پر کوئی ذمہ داری ادانہیں کررہے اگر کہیں انسپکشن کی بھی جاتی ہے تو لفافے کی نظر ہو جاتی ہے ورکرز کے مسائل کو کہیں بھی ایڈریس نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ملک بھر کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں تھرڈ پارٹی کنٹریکٹر کے ذریعے مستقل پوسٹوں پر بالخصوص کلریکل اور نان کلریکل کیڈرز میں بھرتیاں ایمپلائمنٹ اسٹینڈنگ آرڈر1968 کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔

(جاری ہے)

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ جو قوانین مرتب کئے ہوئے ہیں ان پر عمل درآمد کرائیں انہوں نے ورکرز کو نہتے کرکے این آئی آر سی اور لیبر کورٹ کی عدالتوں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا ہے جہاں پہلی بات تو ورکرز کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ وکیل بھاری فیسوں پر ہائر کر سکیں تاکہ وہ اپنی درخواست متعلقہ عدالت میں داخل کر سکے اگر کوئی ورکرکسی طرح اپنی گھر کی جمع پونجی وکیل کو ادا کرکے کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو ان عدالتوں میںممبران کی کمی کی وجہ سے مقدمے میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ ورکرز کے گھر کو چولہہ بند ہونا شروع جاتا ہے ، دوسرے طرف ادارے کنٹریکٹ اور تھرڈ پارٹی ورکرز کو ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینے دیتے جبکہ ورکر کی تعریف کی روشنی میںان کو حق حاصل ہے اس کے لئے اگر ادارے کے ورکرز یونین کی ممبر شپ حاصل کریں توٹریڈ یونین ورکر ز کو حقوق دلا سکتیں ہیں لیکن ورکر ز بھی اپنا کردار ادا نہیں کرتے اس کے برعکس رجسٹرار ٹریڈ یونینز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ازخود اداروں میں جا کر اس کی تحقیق کریںتاکہ ریفرنڈ کے وقت ادارے کی طرف سے فراہم کردہ ورکرز کی فہرست کی چھان بین کرے اس ادارے میں نوے دن کام کرنے والے ورکرز کو ووٹرز فہرست سے باہر تو نہیں رکھاگیا لیکن وہ انتظامیہ کی طرف سے فراہم کردہ فہرست کو حتمی قرار دے کر اداروں میں کروڑوں تھرڈ پارٹی ورکرز کو انجمن سازی سے محروم کر رہے ہیں جو کہ ملک دستور کے آرٹیکل17 کی خلاف ورزی کے ساتھ آئی ایل او کے کنونشن 87 اور 98 کی خلاف ورزی ہے لیکن ریاست کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔

اس صورتحال کے باوجود آئی ایل او جو سہہ فریقی فورم ہے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے سرمایہ داروں کا فرنٹ مین کا کردار ادا کرہا ہے 2024 میں آئی ایل او، پنجاب اور سندھ کے محنت کی وزارت کے نمائندوں کی ملی بھگت سے Labour Code 2024 اچانک متعارف کرایا گیا جب ہم جیسے ٹریڈ یونین ورکرز نے اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا تو بنیادی طور پر ورک مین، ایمپلائر، اسٹبلشمنٹ کی تعریف یکسر تبدیل کرکے ایمپائمنٹ اسٹیڈنگ آرڈر 1968 کو پابندیوں کو ختم کرنے کی سازش نظر آئی جب ٹریڈ یونینز کے نمائندوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو کہا گیا کہ ہم تمام لیبر لاء کو یکجا کررہے ہیں لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی بنیادی طور پر کنٹریکٹ اور تھرڈ پارٹی ورکرز کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی سازش ہو رہی ہے تاکہ کسی بھی ادارے میں مستقل بھرتیاں محنت کش کیڈروں میں مستقل بنیادوں پر نہ کی جائیں پھر جسے چاہیں ملازمت پر رکھیں اور جیسے چاہیں اسکا گیٹ بند کرکے اسے ملازمت سے محروم کر دیا جائے اس کے خلاف تمام مزدور نمائندے ملک بھر میں آواز بلند کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ایسے لوگ براجمان ہیں وہ آئی ایل او کے سہولت کاری کا کردار ادا کر رہے ہیں اوردباؤ ڈال رہے ہیں کہ ٹریڈ یونینز نمائندے کوڈ آف کنڈکٹ 2024کو تسلیم کریں ۔

اس کے خلاف ملک بھر کی سطح پر منظم ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی علاوہ ازیں ملک بھر کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز میں ٹریڈ یونین کا خاتمہ ہو جائے گا۔