اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اگست 2025ء) صغریٰ ایاز انسدادِ پولیو مہم کا حصہ ہیں۔ ان کا زیادہ تر وقت پاکستان کے جنوب مشرقی علاقوں میں بسنے والے خاندانوں کو پولیو کے خطرناک اثرات بتاتے ہوئے گزرتا ہے۔ اس دوران بچوں کے والدین ان سے اپنے خوف اور خدشات بھی بانٹتے ہیں۔ بعض یہ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں ویکسین سے زیادہ پانی اور راشن کی ضرورت ہے، تو بعض دیگر والدین کو پولیو کے قطروں سے ہی مسئلہ ہے، کیونکہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ پولیو کے قطروں سے ان کے بچوں میں 'بانچھ پن‘ کے اثرات نمایاں ہوسکتے ہیں۔
پاکستان: انسداد پولیو مہم کو بڑا دھچکا، رواں برس 11ویں کیس کا اندراج
بچوں کی جانیں بچانے والے پولیو ورکرز کی جانیں خطرے میں
واضح رہے کہ افغانستان اور پاکستان میں پولیو کی ویکسین سے متعلق غلط اور غیر تصدیق شدہ خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔
(جاری ہے)
یہ دنیا کہ دو ملک ہیں جہاں سے پولیو اب تک ختم نہیں کیا جاسکا۔ ایسے میں صغریٰ جیسے ملازمین کئی مرتبہ بدانتظامی سے متعلق مسائل کی نشاندہی بھی کرتے آئے ہیں لیکن اس پر اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
لیکن اب اس کیمپین سے جڑے افراد بتاتے ہیں کہ پولیو کے کیسز میں حالیہ اضافے کی بڑی وجوہات میں بدانتظامی اور ویکسین کو مناسب طور پر اسٹور نہ کرنا سرِفہرست ہے۔
صغری نے بتایا کہ پولیو کیمپین کو جلد کامیاب بنانے کے چکّر میں کئی مینیجرز اپنی ٹیم کو بچوں کو پولیو کے قطرے مکمل ہونے کا غلط نشان لگانے کا کہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جن ویکسینز کو ٹھنڈا رکھنا ہوتا ہے، ان کو صحیح طریقے سے سٹور نہیں کیا جاتا۔
صغریٰ کے بقول، ’’ہمارا کام جس ایمانداری کے ساتھ ہونا چاہیے ویسے نہیں کیا جاتا۔‘‘پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے 1980ء کی دہائی میں شروع کرنے والی مہم میں اب تک 20 ارب ڈالرز خرچ کیے جا چکے ہیں۔ تاہم پولیو کیمپین میں شامل افسران اور ماہرین پولیو کے مکمل خاتمے میں ناکامی کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔
تاہم عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر جمال احمد کہتے ہیں کہ مشکلات کو بڑھا چڑھا کر نہ پیش کیا جائے: ''آج بہت سے بچے، 40 سال سے چلنے والی اسی کیمپین کے نتیجے میں صحت مند اور پولیو سے محفوظ ہیں۔
‘‘ ڈاکٹر احمد نے امید ظاہر کی کہ پولیو اگلے 12 سے 18 ماہ کے درمیان ختم کردیا جائے گا۔لیکن دستاویزات اور زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ اے ایف پی کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق 2017ء سے پولیو ورکرز نے متعدد بار ویکسین کے غلط ریکارڈ جمع کرنے، غیر تربیت یافتہ پولیو ورکرز کی بھرتی، اور ویکسین کو غلط طور پر ہینڈل کرنے جیسے معاملات کے بارے میں اپنے سینئیر افسران کو بتایا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے افسران نے بتایا کہ اکثر پولیو ورکرز کو ویکسین کو سنبھالنا نہیں آتا تھا، جبکہ کئی بار ویکسین اتنی استعمال نہیں کی جاتی تھی جتنا کہ دستاویزات میں لکھا ہوتا تھا۔
اس کے بارے میں ڈاکٹر ذوالفقار بھٹّہ نے، جو عالمی ادارہ صحت کے متعدد مشاورتی گروپوں کا حصہ رہے ہیں، کہا کہ کیمپین افسران کو اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی تنقید سننی چاہیے: ''ایسی فرسودہ پالیسی پر اندھا اعتماد رکھنا جس سے اتنے سالوں میں کوئی حل نہیں نکل سکا ہے، وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔
‘‘دوسری جانب، پاکستان کے شہر کراچی میں پولیو ورکرز اپنی حفاظت کے بارے میں پریشان ہیں۔ یہاں بھی کیمپین کے دوران پولیو ٹیم کے ساتھ پولیس اہلکار موجود ہوتے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق 1990 کی دہائی سے پولیو ٹیم کی نگرانی کرنے پر مامور 200 سے زیادہ پولیس اہلکار مارے جاچکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو عسکریت پسند گروہوں نے مارا۔
امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کی پروفیسر سویہ کلوثر کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں پولیو مہم سے متعلق کبھی اتنی مزاحمت نہیں تھی جتنی آج ہے: ''پولیو کیمپین کو ایک بہت بڑا دھچکا امریکی سی آئی اے کی جعلی کییمپین سے لگا۔‘‘
افغانستان اور پاکستان میں کام کرنے والے پولیو ورکرز نے غلط اعداد وشمار کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ فیلڈ میں کام کرنا خاصا مشکل ہے: ''ایک طرف معاشرتی رکاوٹیں ہیں، تو دوسری طرف پولیو ویکسین کے بارے میں غیر تصدیق شدہ اور من گھڑت باتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
‘‘افغانستان میں کام کرنے والے ایک پولیو ورکر نے بتایا، ''جب ہم ویکسین لگانے کے لیے دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو اکثر گھر میں مرد نہیں ہوتے اور یہ بات معیوب سمجھی جاتی ہے کہ غیر مرد دروازے پر دستک دے کر خواتین سے بات کریں۔‘‘
اکثر ویکسین سے متعلق غلط خبروں کے سبب لوگ بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کر دیتے ہیں۔
پولیو ورکرز کے مطابق ایک اور پولیو ورکر نے بتایا: ''یہ ساری باتیں ہم نے اپنے سینئیرز کو بتائی ہیں۔‘‘ صغری بتاتی ہیں کہ کئی بار بچوں کی چھوٹی انگلی پر نشان لگادیا جاتا ہے جبکہ انہیں ویکسین نہیں پلائی گئی ہوتی۔دوسری جانب کچھ طبی ماہرین قطروں کی صورت میں ویکسین پلانے کے بھی خلاف ہیں۔ حالانکہ اورل ویکسین محفوظ اور موّثر ثابت ہوچکی ہے اور اب تک تین ارب بچوں کو پلائی بھی جاچکی ہے۔
طبی ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس کے نتیجے میں دو کروڑ سے زائد بچے پولیو کا شکار ہونے سے محفوظ رہے۔بعض پولیو ورکرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ویکسین پر بڑھتی بے اعتمادی اور پولیو کیمپین کی بڑھتی بد انتظامی پولیو کی روک تھام کے آڑے آرہی ہے۔
افغانستان کے جنوب مشرقی حصے میں ایک خاتون نے پولیو ورکرز کو بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ اپنے بچوں کو پولیو ویکسین دیں، لیکن ان کے خاوند اور خاندان کے دیگر مرد اس ویکسین کے خلاف ہیں کیونکہ وہ ان غلط افواہوں پر یقین کرتے ہیں کہ ویکسین سے بانچھ پن ہوتا ہے: ''اگر میں ان کے خلاف جاتی ہوں، تو مجھے بھی مار پیٹ کر گھر سے نکال دیں گے۔‘‘
ادارت: افسر اعوان