پاکستان میں سائیکل کا پہیہ دوبارہ چل پڑا

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 16 اگست 2025 13:20

پاکستان میں سائیکل کا پہیہ دوبارہ چل پڑا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اگست 2025ء) صنعت کار ظفر احمد ملک کے مطابق پاکستان میں سائیکلوں کی سالانہ پیداوار 15 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ تقریباً دو لاکھ سائیکلیں درآمد کی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کووڈ انیس کے دوران اس صنعت کو نئی زندگی ملی کیونکہ لوگوں نے صحت اور سستے سفر کے لیے سائیکلنگ کو ترجیح دی۔ آج کل نوجوان، فٹنس کی شوقین خواتین اور بزرگ اس رجحان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

لاہور کی نیلا گنبد سائیکل مارکیٹ کے صدر ماجد شاہین نے بتایا کہ پٹرول اور موٹر سائیکل کی بڑھتی قیمتوں نے سائیکل کی فروخت کو فروغ دیا ہے۔ ایک موٹر سائیکل، جو پہلے 75 ہزار روپے کی تھی، اب اڑھائی لاکھ روپے کی ہو چکی ہے۔ نتیجتاً لوگ بچوں کو اسکول چھوڑنے اور قریبی سفر کے لیے سائیکل کا انتخاب کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

صرف نیلا گنبد میں 350 دکانیں سائیکل فروخت کر رہی ہیں، جبکہ ملک بھر میں 15 سے 20 بڑی فیکٹریاں اور متعدد کاٹیج انڈسٹریز اس شعبے سے منسلک ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کا رجحان

تاجر محمد جہانگیر کے مطابق سائیکل اب جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ کاربن فائبر فریم، گیئرز اور ڈسک بریک والی سائیکلیں عام ہیں، جن میں سے کچھ ماڈل صرف پانچ کلوگرام وزن کے ہیں۔ دیہات میں پرانی طرز کی ''بابا سائیکل‘‘ اب بھی مقبول ہے، جبکہ شہروں میں اسپورٹس سائیکل کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

سائیکلوں کی قیمتیں پانچ ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک ہیں لیکن ایک اچھی معیاری سائیکل 15 سے 25 ہزار روپے میں مل جاتی ہے۔

ٹور ڈی ایمپوسبل؟ پاکستان میں دنیا کی بلند ترین سائیکل ریس

تاجر عبدالقیوم کا کہنا ہے کہ اگرچہ سائیکل کا وہ دور شاید واپس نہ آئے، جب یہ عام آدمی کی بنیادی سواری تھی لیکن مقامی سائیکلوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔

سہراب، ایگل اور بیکو (پیکو) جیسے روایتی برانڈز اب ماضی کا حصہ ہیں، جبکہ امیر طبقہ الیکٹرک بائیکس اور اسکوٹیز کی طرف راغب ہے۔

ظفر ملک کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے درآمد شدہ سائیکلوں کی طلب کم ہوئی، جس سے مقامی سائیکلوں کو فروغ ملا۔ انہوں نے تجویز دی کہ اگر حکومت سرپرستی کرے تو پاکستان کی سائیکل انڈسٹری افغان اور افریقی مارکیٹوں میں برآمدات بڑھا سکتی ہے۔

صحت اور ماحولیاتی فوائد

ڈاکٹر وسیم صابر بلوچ، جو شمالی علاقوں میں سائیکلنگ کے شوقین ہیں، کہتے ہیں کہ سائیکلنگ ذیابیطس سمیت کئی بیماریوں کے علاج میں معاون ہے اور ڈپریشن کے مریضوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ وہ تجویز دیتے ہیں کہ طلبہ کو سائیکل پر رعایت دی جائے اور شہروں میں سائیکل ٹریک بنائے جائیں تاکہ اس رجحان کو مزید فروغ ملے۔

سائیکلنگ کلب اور سماجی سرگرمیاں

لاہور میں درجنوں سائیکلنگ کلب سرگرم ہیں۔ کریٹیکل ماس لاہور کے رکن عدیل شاہد نے بتایا کہ ہر یومِ آزادی پر 700 سے 800 سائیکلسٹ لبرٹی چوک سے باغِ جناح تک ریلی نکالتے ہیں، قومی ترانہ پڑھتے ہیں اور کیک کاٹتے ہیں۔

نوجوان سائیکلسٹ صہیب علی خان نے بتایا کہ لاہور کی مصروف سڑکوں پر سائیکل چلانا خطرناک ہو سکتا ہے، اس لیے وہ صبح سویرے یا رات گئے سائیکلنگ کرتے ہیں۔

ان کے گروپ میں 10 سے 50 سال کی عمر کے افراد شامل ہیں۔

قسمت کا چکر سائیکل کے پہیوں سے بندھا ہوا

ہفتہ وار سائیکلنگ ایونٹس میں سینکڑوں سائیکلسٹ لاہور کے مختلف علاقوں سے نکلتے ہیں، 10 سے 15 کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں اور ناشتے کے بعد واپس آتے ہیں۔ کارپوریٹ سائیکلنگ کلب کی رکن اسما کا کہنا ہے کہ اگر معاشرتی رکاوٹیں دور ہوں تو خواتین کے لیے سائیکلنگ، ان کی صحت اور سفر دونوں کے لیے بہترین متبادل ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں سائیکل صرف ایک سواری نہیں، بلکہ ادب و ثقافت کا حصہ بھی رہی ہے۔ ''مرزا کی بائیسکل‘‘ جیسے مزاحیہ خاکوں سے لے کر ابرارالحق کے گیت ''آ جا توں بہہ جا سائیکل تے‘‘ تک، سائیکل پاکستانی ثقافت میں زندہ ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر حکومت اس شعبے کی سرپرستی کرے اور سائیکل ٹریکس، جیسے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنائے، تو یہ صنعت نہ صرف ملکی ضروریات پوری کر سکتی ہے بلکہ عالمی مارکیٹ میں بھی اپنا مقام بنا سکتی ہے۔

ادارت: امتیاز احمد